افغانستان سے فوجی مشن بلایا ہے سفارتی نہیں، امریکا

( مانیٹرنگ ڈیسک )امریکی وزراتِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ فوجی مشن کے خاتمے کا مطلب افغانستان میں سفارتی اور فلاحی مشن کا خاتمہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت سے توقع ہے وہ افغان عوام سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کرے گی۔ ایک سال میں امریکا نے تحفظ کےغیرمعمولی اقدامات کیے ہیں۔
امریکی وزراتِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ القاعدہ لیڈر ایمن الزواہری کی ہلاکت کے ثبوت موجود ہیں، افغان انخلاء سے آج ہمارے پاس نئے عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ وسائل ہیں۔
نیڈ پرائس نے کہا کہ نئے عالمی چیلنجوں میں موسمیاتی تبدیلی، روسی جارحیت اور چین سے مقابلہ شامل ہیں۔
امریکی وزراتِ خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ جوہری معاہدے کے لیے ایران کو ہر صورت ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری ترک کرنا ہوگی، امریکی ارکانِ کانگریس کے دورہ تائیوان پر چین کا ردعمل غیرذمہ دارانہ ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ کی اعلیٰ فوجی قیادت نے گزشتہ برس اعتراف کیا تھا کہ امریکہ افغانستان میں 20 سالہ جنگ ’ہار‘ گیا اور اس شکست کے عوامل کے طور پر انہوں نے طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کے معاملے پر پاکستان سے موثر انداز میں نہ نمٹنے کا ذکر کیا تھا۔
امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے ہاؤس کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے کہا تھا: ’یہ واضح ہے۔ یہ ہم سب پر واضح ہے کہ افغانستان کی جنگ ان شرائط پر ختم نہیں ہوئی، جیسا ہم چاہتے تھے۔‘
مارک ملی نے افغانستان سے امریکی فوج کے افراتفری میں کیے گئےانخلا کے بارے میں سماعت کرنے والی کمیٹی کو بتایا: ’یہ جنگ ایک سٹریٹجک ناکامی تھی۔‘
’یہ شکست پچھلے 20 دنوں یا 20 مہینوں میں نہیں ہوئی۔ یہ سٹریٹجک فیصلوں کا ایک مجموعی اثر ہے۔‘
صدر جوبائیڈن کے اعلیٰ عسکری مشیر ملی نے کہا: ’جب بھی آپ کے سامنے کوئی ایسی صورت حال ہوتی ہے، جیسے کہ ایک ہاری ہوئی جنگ اور اگرچہ ہم نے القاعدہ سے امریکہ کو بچانے کے اپنے سٹریٹجک کام کو پورا کیا ہے، لیکن یقینی طور پر نتائج اس سے بالکل مختلف ہیں، جو ہم چاہتے تھے۔‘
انہوں نے کہا: ’لہٰذا جب بھی اس طرح کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس میں بہت سارے عوامل ہوتے ہیں اور ہمیں اس کا اندازہ لگانا ہوگا۔ اس میں ہمارے سیکھنے کے لیے بہت سارے سبق ہیں۔‘
ملی نے افغانستان میں امریکی شکست کے سلسلے میں بہت سارے عوامل کا احاطہ کیا، جن میں 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے فوراً بعد تورا بورا میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو پکڑنے یا ہلاک کرنے کا ضائع ہونے والا موقع بھی شامل ہے۔
انہوں نے 2003 میں عراق پر حملے کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا، جس نے امریکی فوجیوں کو افغانستان سے دور منتقل کر دیا۔