پنجاب یونیورسٹی لاہور ایک مرتبہ پھر میدان جنگ بن گئی

( جہانزیب احمد خان ) پنجاب یونیورسٹی میں طلباء تنظیموں کے تصادم میں 2 طالب علم زخمی ہوگئے۔
پولیس کے مطابق تصادم کے دوران ہاسٹل نمبر2 کے قریب فائرنگ ہوئی، گولی لگنے سے زخمی ہونے والے ایک طالب علم کی شناخت عامرفدا کے نام سے ہوئی ہے۔
واقعے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے طلباء تنظیم کے کارکنوں نے کیمپس پل کو بلاک کردیا۔
مظاہرین نے کینال روڈ کو دونوں اطراف سے ٹریفک کےلیے بند کردیا۔
بعد ازاں پولیس سے مذاکرات کے بعد طلباء تنظیم کے کارکنوں نے 2 گھنٹے بعد احتجاج ختم کردیا۔
پنجاب یونیورستی میں اسلامی جمیعت طلبا کا تسلط دہائیان گزر جانے کے بعد بھی قائم ہیں رواں برس جمیعت اور مٹکلف طلبا تنظیموں کے درمیان تشدد اور تصادم کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں سب سے پہلے اتوار 23 جنوری کو تصادم کا ایک بڑا واقعہ پیش آیا جس میں کارکنوں کی گرفتاری کے بعد جمیعت نے یونیورسٹی کے اطراف سڑکوں کے کئی گھنٹے بند رکھا جس سے شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا۔
یونیورسٹی میں جمیعت کے ناظم عبدالقدیر کا کہنا تھا کہ ’ہمارے 33 کارکنان پولیس نے حراست میں لیے ہوئے ہیں اور ہمارا احتجاج اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک ان کو رہا نہیں کیا جاتا۔‘
انہوں نے سڑکیں دوبارہ بند کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کہ ’ہمارے کارکن ایک ڈیپارٹمنٹ میں سٹڈی سرکل کررہے تھے جہاں غیر ضرور طور پر پولیس کو بلا کر انہیں گرفتار کروایا گیا‘
تاہم یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف اس سے مختلف ہے یونیورسٹی ترجمان محمد خرم کے مطابق ’یہ معاملہ ایسا نہیں جیسا جمیعت بتا رہی ہے۔ ان کے 12 کارکنان کو غیر نصابی سرگرمیوں اور یونیورسٹی قوانین کی خلاف ورزی پر معطل کیا گیا تھا۔ گذشتہ روز سپورٹس سائنسز کے سمسٹر امتحانات شروع ہوئے تو وہ معطل طلبا زبردستی امتحان دینے کے لئے ڈیپارٹمنٹ پہنچ گئے‘
محمد خرم کا اسوقت کہنا تھا کہ ’جب اساتذہ نے انہیں ایسا کرنے کو منع کیا تو جمیعت کے کارکنوں نے اساتذہ سے بدتمیزی کی۔ جس کی وجہ سے عام طالب علم بھی طیش میں آگئے اور حالات کشیدہ ہونے پر پولیس کو طلب کیا گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ امتحانات کو سبوتاژ کرنے کے لیے جمیعت کے کارکنان نے کئی کوششیں کی جس کی بدولت پولیس کو طلب کرنا پڑا۔
جنوری 2022 میں ایس پی اقبال ٹاون رضا تنویر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’یونیورسٹی انتظامیہ کی کال پر پولیس نے فوری کارروائی کی اور بڑی تعداد میں اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچے تو جمیعت کے کارکنان توڑ پھوڑ کر رہے تھے پولیس نے ملوث کارکنوں کو گرفتار کیا۔ ہمارے پاس کل 33 کارکنان ہیں۔ جن میں سے تین کا جسمانی ریمانڈ لے لیا گیا ہے باقیوں کو بھی عدالت کے روبرو پیش کیا جائےگا‘
خیال رہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں طویل عرصہ سے اسلامی جمیعت طلبا اور دیگر نئی بننے والی تنظیوں کے درمیان جھگڑے اور مار پیٹ کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ لیکن جمیعت کے درجنوں کارکنان کی کسی بھی واقعے میں گرفتاری گزشتہ چند سال کے دوران یہ ای بڑا واقعہ تھا،
پولیس نے مقدمہ یونیورسٹی انتظامیہ کی مدعیت میں نہ صرف درج کیا بلکہ اس میں غنڈہ گردی اور کار سرکار میں مداخلت سمیت کئی دفعات لگائی گئیں۔
اسکے بعد فروری 2022 کے آخری ہفتہ کے دوران جمعہ کے روز تصادم کرنے والے طلباء کے خلاف کارروائی کر دی گئی ہے۔ یونیورسٹی حکام نے طلباء کی شناخت کرنے کے بعد انھیں معطل کر دیا ہے۔ معطل ہونے والوں میں ڈیپارٹمنٹ آف فلاسفی سے محمد وقاص، ہیلے کالج آف کامرس سے عمران خان، انسٹیوٹ آف کیمیکل سے محمد ریحان جبکہ سوشیالوجی سے مظفر احمد، عنصر عباس، قیصر خان، نسیم احمد، محمد عمر الیاس، کبیر سہیل، بلال لقمان، ارسلان ارشد اور محمد عبد اللہ شامل تھے۔
انکے علاوہ شاہ زیب عارف اور بابر حسین کو بھی معطل کر دیا گیا اور تمام طلبا کی ہاسٹل رکنیت بھی منسوخ کر دی گئی۔ رجسٹرار ڈاکٹر خالد خان نے ام طلباء کی تفصیلات متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہان کو ارسال کر دی ہے اور ہاسٹل وارڈنز کو ہدایات جاری کین کہ وہ ان طلباء کے کمروں کی الاٹمنٹ بھی منسوخ کر دیں۔
فروری کے دوسرے ہفتہ کے دوران دو طلباء تنظیموں میں تصادم کے باعث بھی پنجاب یونیورسٹی میدان جنگ بن گئی تھی۔ پشتون ایجوکیشنل موومنٹ اور پنجابی کونسل کے درمیان لڑائی ہوئی، طلباء تنظیموں کے کارکنوں کی جانب سے ایک دوسرے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، اس دوران ڈنڈوں اور سوٹوں کا بھی آزادانہ استعمال کیا گیا۔
اسکے بعد اگست کے وسط میں پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کے درمیان پھر جھگڑا ہوا طلباء نے ایک دوسرے پر لاٹھیاں اور پتھر برسائے، اسلامی جمیعت طلبہ کا واقعے کے خلاف وائس چانسلر آفس کے باہر احتجاجی مظاہرہ، واقعہ پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل نمبر 14 میں پیش آیا،
جہاں دو طلبہ تنظیموں نے ایک دوسرے پر ڈنڈے، پتھر اور راڈوں سے حملہ کر دیا۔ جھگڑے میں 3 طلبہ زخمی ہوگئے۔ صورتحال کے پیش نظر ایس پی اقبال ٹاؤن ڈاکٹر عمارہ شیرازی متعلقہ ڈی ایس پی، ایس ایچ اوز بھاری نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچے ۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے واضح الفاظ مین جھگڑا کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لانے کی بات کی تھی۔