نشتر ہسپتال میں بچوں کی 500 لاشوں سے متعلق افواہ سازی کا بازار

(مانیٹرنگ ڈیسک)سوشل میڈیا پر نشتر ہسپتال اس وقت ٹاپ ٹرینڈنگ میں ہے جہاں پانچ سو بچوں کی گلی سڑی لاشیں منظر عام ہر آنے کا دعوی کیا جا رہا ہے۔ مختلف سوشل میڈیا اکاونٹس سے کچھ غیر شناخت شدہ تصویریں شئیر کی جا رہی ہیں۔ جس کے بعد سوشل میڈیا پر کھلبلی مچی اور ان تصاویر سے متعلق ہوش ربا دعوے سامنے آنے لگے کہیں انہیں لاپتہ بلوچ علیحدگی پسندوں کی لاشیں قرار دیا گیا تو کہیں انسانی اعضا فروخت کرنے والے مافیا کا گھناونا کام لیکن سب سے بڑی افواہ پانچ سو بچوں کی لاشوں سے متعلق ہے۔کچھ نیوز چینلز اور صحافیوں نے بھی انتہائی غیر ذمہ دارانہ ٹوئٹس اور ویڈیو کلپ شئیر کیئَے۔
لاشوں کی تعدادکے بارے میں مستند اعدادوشمار تاحال سامنے نہیں آ سکے جبکہ حکومت پنجاب اور ہسپتال کی طرف سے آنے والی وضاحتیں یہ بتانے میں ناکام رہی ہیں کہ ان لاشوں کو کسی لیبارٹری یا قبرستان کی بجائے چھت پر کیوں رکھا گیا
ان لاشوں کی حقیقت کیا ہے؟
نشتر ہسپتال کی چھت پر لاشوں کی تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد پنجاب حکومت کی ابتدائی تفتتیش میں بتایا گیا ہے کہ یہ نامعلوم افراد کی لاشیں تھیں جو مقامی پولیس نے میڈیکل سٹوڈنٹس کے تعلیمی مقاصد کے لیے نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے حوالے کی تھیں۔
اس پنجاب حکومت نے گزشتہ رات ہی انکوائری کا اعلان کرتے ہوئے نشتر ہسپتال کے میڈیکل سپرٹنڈنٹ کو تین دن کے اندر اندر وضاحت پیش کرنے کا حکم دیا۔
پنجاب حکومت کی جانب سے نشتر ہسپتال کے میڈیکل سپرٹنڈنٹ کو لکھے جانے والے خط میں کہا گیا کہ ’نشتر ہسپتال کی چھت پر گلی سڑی لاشوں کی اطلاعات سامنے آنے پر عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور حکام نے اس معاملے کو نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا فیصلہ کیا ہے۔‘
پنجاب حکومت کی جانب سے نشتر ہسپتال کے انتظامی سربراہ کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس معاملے پر ایک تفصیلی تفتیش کریں اور تین دن کے اندر اندر انکوائری کی رپورٹ پیش کریں۔
لاشیں کس کی ہیں اور پسپتال کی چھت پر انہیں کیوں رکھا گیا؟
انکوائری کے مکمل ہونے سے پہلے ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الہی کے بیٹے اور سابق وفاقی وزیر مونس الہی کی جانب سے جمعہ کی صبح سوشل میڈیا پر نشتر میڈیکل کالج کی جانب سے دیے جانے والا ابتدائی موقف پیش کیا گیا۔
مونس الہی کے مطابق نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ نے اپنے جواب میں وضاحت کی کہ ’یہ لاشیں نامعلوم افراد کی تھیں جو پولیس نے نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے حوالے اس مقصد سے کی تھیں کہ ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے۔‘
تازہ ترین اطلاعات سے لاشوں کی تعداد اور متوفیان کی عمروں کا اندازہ ہو چکا ہے۔ لاشوں کی تعدادکے بارے میں مستند اعدادوشمار تاحال سامنے نہیں آ سکے جبکہ حکومت پنجاب اور ہسپتال کی طرف سے آنے والی وضاحتیں یہ بتانے میں ناکام رہی ہیں کہ ان لاشوں کو کسی لیبارٹری یا قبرستان کی بجائے چھت پر کیوں رکھا گیا
واضح رہے کہ اناٹومی جسمانی اعضا کے بارے میں علم حاصل کرنے کا مضمون ہے جو میڈیکل کالجز میں پہلے دو سال کے دوران ایم بی بی ایس کرنے والے طلبا کو پڑھایا جاتا ہے جبکہ پوسٹ مارٹم وہ عمل ہے جس میں موت کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے مرنے والے کے جسم کا معائنہ کیا جاتا ہے اور جسم سے نمونے حاصل کیے جاتے ہیں تاکہ ان کی جانچ پڑتال کی جا سکے۔
اس وضاحت کے مطابق ’پولیس کی جانب سے ان لاشوں کو حوالے کرنے کے بعد کہا گیا تھا کہ اگر ضرورت ہو تو ان کو ایم بی بی ایس طلبا کے تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘
تاہم، اس وضاحت میں ہسپتال کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’یہ لاشیں گل سڑ رہی تھیں اور ان سے بدبو آ رہی تھی، اس لیے ان کو فریزر میں نہیں رکھا جا سکتا تھا اور ان کی حالت ایسی تھی کہ ان کو تعلیمی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرنا ممکن نہیں تھا۔‘
ہیڈ آف اناٹومی ڈیپارٹمنٹ نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی وضاحت کے مطابق ’ان لاشوں کے گلنے سڑنے کا عمل مکمل ہونے کے بعد ان کے جسم سے ہڈیاں الگ کر لی جاتی ہیں جن کو تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور لاشوں کو دفنا دیا جاتا ہے۔ اس لیے لاشوں کی بے حرمتی کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔‘
بی بی سی نے نشتر ہسپتال کے میڈیکل کالج کے اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ پروفیسر مریم اشرف سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر وہ ایک پریس کانفرنس کرنے والی ہیں جس میں تمام تفصیلات دی جائیں گی۔