تازہ ترینعجیب و غریب
شکار پور میں شادی کے 10 سال بعد خاتون نے 4 بچیوں کو اکٹھے جنم دیا

( شیتل ملک ) شکار پور میں شادی کے 10 سال بعد خاتون کے ہاں ایک ساتھ چار بچیوں کی پیدائش ہوئی ہے۔
شکار پور کے نواحی گاؤں امروٹ شریف کی رہائشی خاتون کو تشویشناک حالت میں اسپتال لایا گیا تھا جہاں کامیاب آپریشن کے بعد خاتون نے ایک ساتھ 4 بچیوں کو جنم دیا۔
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ماں اور بچیوں کی صحت بالکل ٹھیک ہے تاہم انہیں نگہداشت میں رکھا گیا ہے۔
جن خواتین کا بی ایم آئی (باڈی ماس انڈیکس) 30 یا اس سے زائد ہو تو ان کے گھر جڑواں بچے پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ فیملی ہسٹری اگر ماں باپ میں سے کسی کی فیملی ہسٹری میں جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی ہو تو اگلی نسل میں بھی جڑواں بچوں کی پیدائش کے امکانات میں ساٹھ فیصد تک اضافہ ہو جاتا ہے، تاہم ممکن ہے کہ اگر ماں کے خاندان میں جڑواں بچوں کی ہسٹری ہو تو امکانات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
- عمر رسیدگی سائنس کہتی ہے کہ اگر ماں کی عمر تیس سال سے زيادہ ہو تو اس کے حمل ٹہرنے کی صورت میں بھی جڑواں بچوں کی پیدائش کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ تیس سال سے زیادہ عمر کی عورت میں ایک سے زیادہ انڈے خارج ہوتے ہیں۔
- قد اور وزن عام طور پر لمبے قد اور صحت مند جسامت والی عورت کے جڑواں بچوں کے پیدا کرنے کے امکانات چھوٹے قد اور کمزور جسامت والی عورت کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں، یعنی وہ عورتیں جن کا وزن اور قد کم ہو ان میں جڑواں بچوں کی پیدائش کے زیادہ امکان ہوتے ہیں، یہ وجہ تھوڑی عجیب ہے تاہم اس وجہ کے بارے میں سائنسی ماہرین حتمی طور پر کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیں۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ افریقی افراد امریکیوں میں جڑواں بچوں کی شرح پیدائش زیادہ ہے جبکہ ایشیائی خواتین میں یہ شرح سب سے کم ہے۔
- ہیومن ری پروڈکشن جریدے میں شائع ایک تجزیے کے مطابق دنیا بھر میں جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافے کی وجہ 30 سال سے زیادہ کی عمر میں بچے پیدا کرنا ہے۔ ایشیا میں اس تعداد میں 32 فیصد اضافہ ہوا جبکہ شمالی امریکہ میں یہ تعداد 71 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔
- جڑواں بچوں سے متعلق محققین نے 165 ممالک سے سنہ 2010 سے 2015 تک جو ڈیٹا جمع کیا ہے اور پھر اس کا سن 1980 سے 1985 تک کے اعداد و شمار سے موازنہ کیا ہے۔
- ہزار پیدا ہونے والے بچوں میں اب یورپ اور شمالی امریکہ میں جڑواں بچے پیدا ہونے کی شرح کہیں زیادہ ہے۔ اور دنیا میں ہر ایک ہزار پیدا ہونے والے بچوں میں یہ تعداد نو سے بڑھ کر 12 ہو گئی ہے۔
- افریقہ میں گذشتہ 30 سال سے جڑواں بچوں کی شرح زیادہ ہے اور اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ آبادی میں اضافہ اس کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔
- دنیا میں اس وقت ہر سال 16 لاکھ جڑواں بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ ہر 42 بچوں میں ایک بچہ جڑواں پیدا ہوتا ہے۔ تاخیر سے بچے پیدا کرنے کا رجحان اور آئی وی ایف جیسی طبی تکنیکوں کے باعث جڑواں بچوں کی شرح میں سن 1980 کی دہائی سے اب تک ایک تہائی اضافہ ہوا ہے۔ مگر اب یہ تعداد کم ہو سکتی ہے کیونکہ اب دوران حمل ایک بچے کی طرف توجہ چلی گئی ہے جو کہ کم خطرناک ہے۔
- جیسے کہ آئی وی ایف، آئی سی ایس آئی، مصنوعی طریقے سے حمل ٹھہرانے جیسے طریقے اس اضافے کی بڑی وجہ ہو سکتی ہےاس طرح کی تکنیک ایک ہی بار متعدد بچوں کی پیدائش کے امکانات کو بڑھا دیتی ہے۔
- تحقیقی جائزے کے مطابق خواتین کا بعد میں خاندانی زندگی شروع کرنا، حمل روکنے کے لیے مصنوعی طریقوں کا استعمال کرنا اور مجموعی طور پر فرٹیلٹی کی شرح کو کم کرنے نے بھی اس میں کردار ادا کیا ہے۔ پروفیسر کرسٹیان مونڈن کے مطابق اب تمام تر زور ایک حمل پر چلا گیا ہے، جو کہ بہت محفوظ طریقہ ہے۔ جڑواں اور متعدد بچوں میں یہ خدشہ ہمیشہ رہتا ہے کہ وہ”پری میچور” یعنی قبل از وقت پیدا ہو سکتے ہیں اور اسی لیے ان کا وزن بھی ایک کلو یا اس سے کم ہوتا ہے۔
- ایک نارمل بچے کا وزن پیدائش کے وقت 2.5 کلوگرام ہونا چاہیے۔ جب کہ ان بچوں کا وزن ایک کلو کے لگ بھگ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پیدائش کے فوری بعد وہ مختلف مسائل کا شکار ہوئے اور باوجود کوشش کےجانبر نہ ہو سکے۔
- ڈاکٹر روبینہ نے مریضہ کے حوالے سے بتایا کہ وہ ضلع ایبٹ آباد سے تقریباً 73 میل دور ایک گاؤں چھتر پلین سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے شوہر روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم رہے ہیں۔ ڈاکٹر روبینہ کا کہنا تھا کہ32 سالہ اس خاتون کے دو بچے اس سے قبل بھی آپریشن سے ہوئے تھے، اور اب بیٹے کی خواہش میں وہ دوبارہ حاملہ ہونا چاہ رہی تھیں۔ اس خاطر انہوں نے حمل ٹھہرانے والی ایک گولی لی، تاکہ وہ جلد از جلد حاملہ ہوں سکیں۔