نفیسہ شاہ کی گاڑی کا گھیراو، سندھ کی بے گھر 4 لاکھ حاملہ خواتین اور منچھر جھیل کی تازہ صورتحال

( شیتل ملک ) سندھ کے شہر خیرپور میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے اپنے حلقے کا دورہ کیا، جہاں سیلاب متاثرین نے اُن کی گاڑی کا گھیراؤ کرلیا۔
مظاہرین نے نفسیہ شاہ کو دیکھتے ہی چور، چور کے نعرے لگانا شروع کردیے اور کہا کہ ہم سڑکوں پر بچوں سمیت کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوئے ہیں۔
مظاہرین نے کہا کہ ہمیں نہ ٹینٹ ملے ہیں اور نہ ہی کھانے پینے کی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔
پی پی رہنما نفیسہ شاہ گاڑی میں چپ چاپ بیٹھی رہیں اور موقع ملتے ہی ہجوم سے نکل کر روانہ ہوگئیں۔
سندھ کی بے گھر 4 لاکھ حاملہ خواتین
سندھ میں سیلاب سے بے گھر ہونیوالی خواتین میں سے 4 لاکھ سے زائد حاملہ ہیں، جن میں سے صرف 891 خواتین ریلیف کیمپس پہنچ سکی ہیں۔ سول ہسپتال کراچی میں دو روز کے دوران سیلاب متاثرہ علاقوں سے آنیوالی 5 خواتین نے بچوں کو جنم دیا ہے۔ ماہرین امراض نسواں نے خبردار کیا ہے کہ اگر حاملہ خواتین کی دیکھ بھال اور محفوظ زچگی کو یقینی نہ بنایا گیا تو ماں سمیت بچے کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
محکمہ صحت سندھ کے جاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سندھ کی 50 لاکھ سے زائد آبادی سیلاب کے نتیجے میں بے گھر ہوئی ہے اور ان بے گھر ہونے والے افراد میں خواتین کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہے۔
رپورٹ کے مطابق سیلاب سے بے گھر ہونیوالی خواتین میں سے 4 لاکھ 10 ہزار 394 خواتین ایسی ہیں جو حاملہ ہیں اور ان خواتین میں سے صرف 891 حاملہ خواتین ریلیف کیمپ پہنچ سکی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کراچی کے مختلف کیمپس میں 35 حاملہ خواتین موجود ہیں۔ سول ہسپتال کراچی کی ایم ایس ڈاکٹر روبینہ بشیر کے مطابق دو روز کے دوران سول ہسپتال کراچی میں 19 خواتین طبی معائنے کیلئے آئی ہیں اور دو روز میں آپریشن کے ذریعے 5 خواتین نے 5 بچوں کو بھی جنم دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پیدا ہونیوالے بچوں اور ماں دونوں صحتمند ہیں، جو خواتین سول ہسپتال آئی ہیں ان میں خون کی کمی ہے اور اسی حساب سے انہیں خون بڑھانے والی دوائیں دی جارہی ہیں، ایمرجنسی کی صورت میں بلڈ بینک سے خون بھی فراہم کیا جارہا ہے۔
ڈاکٹر روبینہ بشیر کا کہنا ہے کہ سول ہسپتال کی جانب سے پیدا ہونیوالے بچوں کے کپڑوں سمیت ماؤں کیلئے ہائی جین کٹس بھی فراہم کررہے ہیں۔
محکمہ صحت سندھ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت سندھ بھر میں 125 صحت کے مراکز مکمل تباہ ہوچکے ہیں اور 2 ہزار 330 مراکز کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔
ماہرین امراض نسواں نے کہا ہے کہ اگر حاملہ خواتین کو دیکھ بھال اور صحت کی مناسب سہولیات سمیت محفوظ زچگی کی سہولیات فراہم نہ کی گئیں تو خدشہ ہے کہ ماں اور بچے دونوں کی زندگیاں خطرے سے دوچار ہوجائیں گی۔
انہوں نے حکومت سندھ پر زور دیا کہ ان خواتین کو جتنا جلد ممکن ہوسکے، دوسرے شہروں میں منتقل کیا جائے اور اگر منتقلی ممکن نہیں تو ایسے میں انہیں سیلاب متاثرہ علاقوں میں ہی خون بڑھانے والی دوائیں، آئرن میڈیسن، خون کی کمی پوری کرنے والی غذا سمیت محفوظ زچگی کیلئے کٹس فراہم کی جائیں۔
اس حوالے سے ماما بے بی فنڈز نے سندھ اور بلوچستان کے سیلاب متاثرہ علاقوں کیلئے محفوظ زچگی کیلئے کٹس تیار کی ہیں اور اپیل کی ہے کہ جو لوگ سیلاب متاثرہ علاقوں میں یہ کٹس عطیہ کرنا چاہیں وہ انہیں یہ تیار کرکے دے سکتے ہیں۔
منچھر جھیل میں بند پر مزید دو کٹ
سندھ کے محکمہ آبپاشی کے مطابق منچھر جھیل میں بند پر مزید دو کٹ لگا دیے گئے۔ کٹ آر ڈی 50 اور آر ڈی 52 پر لگائے گئے ہیں۔
سیہون کے قریب منچھر جھیل میں آرڈی 55 پر لگائے گئے شگاف سے پانی نکلنے لگا ہے۔
ماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا ہے کہ قدرتی آفات والے علاقوں میں اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ حاملہ خواتین سیپسیس میں مبتلا ہوجائیں، بچوں کو جنم دینے کیلئے صاف سطح موجود نہیں ہوتی اور نال کو جراثیم والی قینچی یا چاقو سے کاٹا جاسکتا ہے۔
پیغام میں کہا گیا ہے کہ ان کی تیار کردہ ہر کٹ میں صاف بلیڈ اور دھاگا، واٹر پروف شیٹ، وٹامنز، دستانے، بچے کیلئے کپڑے، پنجیری، صابن، لنگوٹ، تولیہ اور پی پی ایچ کو روکنے کیلئے مسوپروسٹول شامل ہے۔
سیلاب متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ پڑے
دوسری جانب سیلاب متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں، جن میں ڈائریا، ملیریا، ڈینگی اور جلدی امراض شامل ہیں۔
محکمہ صحت سندھ کی رپورٹ کے مطابق یکم جولائی سے 4 ستمبر تک اکیوٹ رسپائریٹری ڈیزیز کے ایک لاکھ 66 ہزار63 کیس، اسہال کے ایک لاکھ 77 ہزار 510، ملیریا کے 58 ہزار 301 اور جلدی بیماریوں کے ایک لاکھ 72 ہزار 61 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں سانپ کے کاٹے کے 109 اور کتے کے کاٹنے کے 572 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ دیگر بیماریوں کے 2 لاکھ 20 ہزار 639 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
محکمہ صحت سندھ کی جانب سے یکم جولائی سے 4 ستمبر تک سیلاب متاثرہ علاقوں میں 3 ہزار 830 موبائل اور 5 ہزار 22 فکسڈ میڈیکل کیمپس منعقد کئے ہیں، جہاں مجموعی طور پر 11 ہزار 615 ڈاکٹرز، 24 ہزار 674 پیرامیڈیکس تعینات تھے، اس عرصے میں 7 لاکھ 85 ہزار 855 مریضوں کو معائنہ اور طبی سہولیات فراہم کی گئیں۔
مقامی افراد کے مطابق آر ڈی 55 جھیل کا نشیبی حصہ ہے، آر ڈی 55 پر کٹ لگانے سے جھیل سے پانی کا اخراج تیزی سے ہوگا۔
مقامی افراد کا کہنا تھا کہ شگاف لگانے کی اصل جگہ یہی تھی۔ آرڈی 55 پر شگاف پہلے لگا دیتے تو صورتحال اتنی خراب نہیں ہوتی۔