افسر اور دفتربلاگتازہ ترینتعلیم و صحتقومی

تھر میں 1600 افراد کو سانپوں کے ڈسنے کے واقعات، ویکسین کیوں دستیاب نہیں ؟

( شیتل ملک ) صحرائے تھر میں بارشوں کے بعد سانپ بلوں سے باہر آ گئے، سانپوں کے ڈسنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ،اب تک 1600 سے زائد افراد سانپ کے ڈسنے سے زخمی ہوگئے۔

ضلع تھر پارکر میں بارشیں کیا ہوئیں سانپ بھی بلوں سے باہر نکل آئے، صرف گزشتہ دو ماہ میں سانپ کے ڈسنےسے 1200 سے زائد افراد زخمی ہوگئے،سانپ ڈسنے کے یہ واقعات کھیتوں میں کام کرنےوالے ہاریوں اور جنگلات میں لکڑیاں کاٹ کر لے جانے والے تھری باسیوں کے ساتھ پیش آئے۔

محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق رواں سال تھرپارکر ضلع کی مختلف تحصیلوں میں اب تک 1600 سےزائد سانپ کے ڈسنے کے واقعات ہوئے ہیں جبکہ اسلام کوٹ میں سانپ کے ڈسنے سے دو سگے بھائی بھی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔

ذرائع کے مطابق دور دراز کے علاقوں میں قائم ڈسپنسریوں میں سانپ کے ڈسنے کے بچاؤ کی ویکسین دستیاب نہیں ہے،البتہ یہ سہولت بڑے اسپتالوں تک محدود ہے۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ تحصیل ہسپتالوں میں سانپ کے ڈسنے سے بچاؤ کی ویکسین کی دستیابی اپنی جگہ احسن قدم سہی لیکن دور دراز کی ڈسپنسریوں میں ویکسین کی دستیابی کو ممکن بناکر لوگوں کی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔

سندھ حکومت کی سانپ کاٹے کی ویکسین

جنوی 2019 میں پیپلز میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی لیبارٹری میں سانپ کے کاٹے کی ویکیسین تیار کر لی گئی تھی ۔سندھ حکومت کی جانب سے اینٹی اسنیک ویکسین اور اینٹی ریبیز ویکسین کی تیاری کے لیے نواب شاہ سے 19کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تحصیل سکرنڈ میں سال 2010 میں سیرولوجی لیبارٹری کا سنگ بنیاد رکھا تھا، لیبارٹری سے وابستہ سائنس داں ڈاکٹر نعیم قریشی اور ان کی ٹیم نے 4 سال کی تحقیق و تجربات کے بعد سانپ کے کاٹنے سے بچاؤ کی ویکسین تیار کی۔ تاہم سندھ کے تحصیل ہسپتالوں میں یہ ویکسین دستیاب نہیں جسکی وجہ سے ماہ اگست کی بارشوں کے بعد سے ابتک سیکڑوں شہری سانپوں کے ڈسنے سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ سانپ ڈسے مریض کو حیدر آباد یا کراچی منتقل کیا جاتا ہے جہاں ویکسین دستیاب ہے لیکن مریضوں کی اکثریت راستے ہی میں دم توڑ جاتی ہے ۔

پیپلز میڈیکل یونیورسٹی کی تیار کردہ ویکسین کی افادیت

پیپلز میڈیکل یونیورسٹی کی تیار کردہ ویکسین کو عالمی ادارہ صحت سے رجسٹرڈ کرایا گیا اور سال 2016 میں پیپلز میڈیکل یونیورسٹی کی ٹیم کے ہمراہ ڈاکٹر نعیم قریشی تھرپارکر گئے اور ویکسین دس مریضوں کو لگائی گئی جس سے تمام مریضوں کی جان بچ گئی اور ان میں کسی بھی قسم کا کوئی سائیڈ افیکٹ بھی نہیں ہوا،ابتدائی طورپر 125 وائلز تیار کیے گئے تھے، 10 کے علاوہ مزید 110مریضوں کو بھی ویکسین لگائی گئی اور نتائج 100 فیصد رہے۔

پاکستان میں تیار کردہ اس حفاظتی ٹیکے کی قیمت

پیپلز میڈیکل یونیورسٹی سے وابستہ سائنسدان ڈاکٹر نعیم قریشی کے مطابق مذکورہ ویکسین پاکستان کی سب سے سستی اور طاقتور ویکسین ہے،بھارت سے امپورٹ کی جانے والی بھارتی اے ایس وی کے 10 سے 12 وائلز ایک مریض کو لگائے جاتے ہیں اور ایک وائل کی قیمت 2ہزار روپے ہے،اسی طرح ایک مریض پر 20ہزار روپے کے اخراجات آتے ہیں، ہماری تیار کی گئی اے ایس وی کا صرف ایک وائل ہی ایک مریض کو لگایا جائے گا۔

سندھ حکومت کی طرف سے فنڈز نہ دیئے جانے کا معاملہ

پیپلز میڈیکل یونیورسٹی کے ذرائع نے لاہور 42 نیوز کو بتایا کہ سکرنڈ میں بنائی گئی اے ایس وی و اے آر بی سیرولوجی لیبارٹری سندھ حکومت نے ان کی یونیورسٹی کے حوالے کی مگر بجٹ نہیں دیا ۔ پی سی ون کے مطابق 250 ملین بجٹ درکار ہے، سندھ حکومت انھیں فنڈز فراہم کرے تو وہ ایک سال میں ویکسین تیار کر کے مارکیٹ میں سب سے کم قیمت پر فروخت کے لیے پیش کر سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button