موسم سرما کی پہلی برف باری کے بعد سردی کی شدت اور سیلاب متاثرین کی مشکلات میں اضافہ

(مائرہ ارجمند) ملک کے مختلف علاقوں میں سال رواں کی پہلی برفباری شروع ہوئی تو موسم مزید سرد ہو گیا جب کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت مختلف شہروں و علاقوں میں ہونے والی موسلا دھار تیز بارش نے سردی کی شدت میں اضافہ کردیا ہے۔
گلگت بلتستان کے ضلع دیا مر میں بارش اور برفباری کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری تھا کہ اچانک سیاحتی مقامات بابو سر ٹاپ اور گیٹی داس سمیت دیگر ملحقہ علاقوں میں شدید برفباری شروع ہوگئی جس کے بعد چلاس جھلکڈ روڈ جزوی طور پر ٹریفک کے لئے بند ہوگئی ہے جب کہ ناران میں بھی برفباری شروع ہونے سے قرب و جوار کے علاقوں کا موسم نہایت سرد ہو گیا ہے۔
اس ضمن میں علاقائی انتظامیہ اور مقامی محکمہ موسمیات کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ بابوسر ٹاپ میں برفباری کے باعث گاڑیوں کی پھسلن کے خطرات موجود ہیں لہذا احتیاط برتی جائے۔
لوئر دیر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر تمرگرہ شہر اور دیگر مضافات میں ہونے والی شدید بارش اور ژالا باری نے تباہی مچا دی ہے، اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تمرگرہ بازار میں ندی میں پیدا ہونے والی طغیانی کے باعث کار الٹ کر بہہ گئی ہے۔
وئر دیر میں تیز بارش کی وجہ سے پانی تبلیغی مرکز میں داخل ہو گیا جس کی اطلاع ملتے ہی مقامی ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو 1122 نے امدادی کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے جب کہ موسم نہایت سرد ہو گیا ہے۔
لوئر دیر شہر اور گرد ونواح میں ہونے والی شدید ژالہ باری سے شہر کی سڑکوں پر سفیدی چھا گئی ہے اور موسم نہایت سرد ہو گیا ہے۔
بونیر، بنوں، کاٹلنگ، رستم، نوشہرہ اور صوابی سمیت دیگر علاقوں میں بھی ہونے والی تیز بارش و ژالہ باری سے موسم کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں بھی ہونے والی موسلا دھار تیز بارش نے موسم کو نہایت سرد کردیا ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق کشمیر، گلگت بلتستان ، بالائی خیبر پختونخوا، اسلا م آباد اور بالائی پنجاب میں آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ بارش، چند مقامات پر ژالہ باری اور بلند پہاڑوں پر برفباری کا امکان ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق ملک کے دیگر علاقوں میں موسم خشک رہے گا۔
ملک میں بڑے پیمانے پر سیلاب سے متاثر ہونے والے نصف سے زائد (54 فیصد) خاندان باہر، خیموں یا عارضی پناہ گاہوں میں سونے پر مجبور ہیں جو اکثر پلاسٹک کی پتلی چادروں سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا، اس تباہی نے تقریباً 36 لاکھ افراد کو بے روزگار کر دیا ہے، جس سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کا ذریعہ معاش بری طرح متاثر ہوا ہے۔
برطانیہ میں قائم ایک فلاحی ادارے ’سیو دی چلڈرن‘ کے ایک سروے کے مطابق زیادہ تر خاندان اپنے گھر کھو چکے ہیں اور وہ سڑکوں کے کنارے خستہ حالت میں رہ رہے ہیں، پناہ کے لیے کپڑے یا ترپال کے ٹکڑوں کا استعمال کر رہے ہیں۔
تنظیم نے کہا کہ 6 میں سے ایک خاندان کے پاس سر چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے، سروے میں شامل نصف سے زائد لوگوں کی بیت الخلا تک رسائی نہیں اور وہ باہر کھڑے پانی میں رفع حاجت کر رہے ہیں، جس سے ہیضہ اور پیچش جیسی سنگین بیماریاں پھیل رہی ہیں۔