عمران خان سیاست دان نہیں ان سے سیاست دانوں والا سلوک نہ کیا جائے مریم نواز

( مانیٹرنگ ڈیسک ) پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا ہے کہ عمران خان سے ایک سیاستدان جیسا سلوک نہ کیا جائے کیونکہ وہ سیاستدان نہیں ہیں۔
Stop treating Imran like a political leader because he’s not. He has been launched & funded to wreck & ruin Pak & plunge the nation into pits of misery & despair. He has waged a war on our country by attacking its stability, economy, society, media & now its Armed Forces.
— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) September 5, 2022
سوشل میڈیا پر بیان جاری کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ عمران خان کو پاکستان کو تباہ کرنے کے لیے لایا گیا اور فنڈنگ کی گئی، عمران خان کو قوم کو مشکل اور مایوسی میں ڈالنے کے لیے لانچ کیا گیا۔
مریم نوازنے کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان نے معیشت، معاشرے، میڈیا اور اب مسلح افواج کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔
مریم نواز سیاسی محاذ پر متحرک
پاکستان مسلم لیگ (ن)کے قائد نواز شریف کی ہدایات پر پارٹی کی نائب صدر مریم نواز ضمنی انتخابات کیلئے متحرک ہو گئیں ، پنجاب میں جلسوں سے خطاب کریں گی ۔ ذرائع کے مطابق مریم نواز ضمنی انتخابات کے سلسلے میں 9ستمبر کو پہلا جلسہ شیخوپورہ میں کریں گی۔
کیا عمران خان کے مشیر انہیں لے ڈوبے؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان نے آ رمی چیف کی تقرری کے ایشو پر غیر ذمہ درانہ اور قابل اعتراض بیان دے کر نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنی پارٹی کیلئے مشکلات پید ا کرلی ہیں۔ان کی جارحانہ پالیسی نے اب سرخ لائن عبور کرلی ہے اور ان کا حالیہ بیان سکیورٹی رسک کے مترادف ہے۔
اس بیان کے بعد ان کی اپنی جماعت کے صلح جو اور معاملہ فہم دھڑے کا کہناہے کہ عمران خان نے مہم جوئی کرکے اپنے پائوں پر کلہاڑی چلا لی ہے۔در اصل عمران خان کےمہم جو مشیر انہیں اس پوائنٹ آ ف نوریٹرن پر لے گئے ہیں جن کا خیال ہے کہ انٹی اسٹیبلشمنٹ اور جارحانہ پالیسی سے ان کی مقبولیت کا گراف بلند ہورہا ہے اور یہی مقبولیت کا کارڈ وہ اپنا جلد الیکشن کا مطالبہ منوانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔اس وقت عمران خان عملی طور پر تنہائی کا شکار ہوگئے ہیں ۔
ملک کی سیا سی اور عسکری قیادت عمران خان کے دبائو میں آنے کیلئے تیار نہیں۔ عمران خان کے غیر ذمہ دارانہ بیان پر آئی ایس پی آر کے ردعمل کے بعد پاک فوج اور ریٹائرڈ فوجیوں میں عمران خان کے بارے میں شدید منفی ردعمل سامنے آ یاہے کیونکہ اس سے بطور ادارہ فوج کو متنازعہ بنا نےاور اس کی ساکھ کو نقصان پہنچا نے کی کوشش کی گئی۔ ان کی پارٹی کے سنجیدہ رہنما ئوں کیلئے ان کا دفاع کرنا یا غیر ذمہ دارانہ بیان کا جواز دینا مشکل ہو گیا ہے۔
آئی ایس آئی کا عمران خان کے بیان پر ردعمل
عمران خان کے نئے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے متنازع بیان پر فوج کا رد عمل سامنے آ چکا ہے لیکن گزشتہ سال اکتوبر میں ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے حوالے سے آرمی چیف نے کس رد عمل کا اظہار کیا تھا یہ ایک راز ہے جس سے صرف چند لوگ ہی واقف ہیں۔ ایک ذریعے نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ عمران خان اپنے اس فیصلے سے پیچھے ہٹ گئے تھے کہ انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کا تقرر آرمی چیف کریں گے،
اس پر رد عمل دیتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے استعفیٰ دینے کا اشارہ دیا تھا۔ جنرل باجوہ کے رد عمل سے حکومتی حلقوں میں افرا تفری پھیل گئی تھی کیونکہ اس استعفے کی وجہ سے وہ قبل از وقت تبدیلیاں ہوتیں جو عمران خان نہیں چاہتے تھے۔ گزشتہ سال 6؍ اکتوبر کو وزیراعظم عمران خان کے ساتھ مشاورت کے بعد جنرل باجوہ نے دیگر تقرریوں اور تبادلوں کے ساتھ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو پشاور بھیج دیا۔
وزیراعظم آفس سے آرمی چیف کو پیغام بھیجا گیا جس سے اشارہ ملا کہ عمران خان فیصلے سے مطمئن ہیں۔ اسی دن آئی ایس پی آر نے لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی لگائے جانے کے فیصلے کا اعلان کیا۔
اگلے دن، عمران خان نے اپنا فیصلہ بدل لیا اور پیغام بھیجا کہ وہ فیض حمید کو چارج چھوڑنے نہیں دیں گے۔ یہ بات جنرل باجوہ کیلئے پریشان کن تھی کیونکہ عمران خان نے پہلے تو رضامندی کا اظہار کیا تھا لیکن بعد میں اپنے الفاظ سے پیچھے ہٹ گئے کیونکہ ان کے اس اقدام سے وہ تمام تبادلے اور تقرریاںواپس ہو جاتے جن کا اعلان کیا جا چکا تھا۔ آرمی چیف نے وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو فون کیا اور کہا کہ وہ عہدے سے استعفیٰ دے رہے ہیں۔
اس صورتحال نے حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچا دی کیونکہ عمران خان نہیں چاہتے تھے کہ جنرل باجوہ ایک ایسے موقع پر چلے جائیں جب ان کی اسکیم کے تحت انہیں کم از کم ایک سال چاہئے تھا تاکہ سینیارٹی لسٹ میں اپنے من پسند امیدوار کو لایا جا سکے جہاں اس امیدوار کے نام پر آرمی چیف کے عہدے کیلئے غور کیا جا سکے۔ کابینہ ارکان نے جنرل باجوہ سے کئی ملاقاتیں کیں تاکہ انہیں اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کیلئے قائل کیا جا سکے۔
معاملات کو ٹھنڈا کرنے میں پانچ دن لگ گئے جس کے بعد عمران خان اور جنرل باجوہ کے درمیان بنی گالا میں ملاقات ہوئی۔ عمران خان نے ہزیمت سے بچنے کیلئے کوئی طریقہ مانگ لیا جس کے بعد عمران خان نے آئی ایس آئی چیف کے عہدے کیلئے تین امیدواروں کے نام مانگے لیکن حتمی طور پر اسی افسر کو عہدے پر لگایا جس کا اعلان آئی ایس پی آر پہلے ہی کر چکا تھا۔
اس صورتحال سے آگاہ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ایک سال کیلئے کسی کور کی سربراہی کے خواہش مند تھے کیونکہ آرمی چیف کے عہدے کیلئے جن امیدواروں کے نام پر غور ہوتا ہے ان کیلئے کور کی سربراہی لازمی ہوتی ہے۔ جنرل باجوہ نے اس فیض کی درخواست قبول کی اور وزیراعظم عمران خان کو مارچ 2021ء میں پہلی مرتبہ مطلع کیا لیکن انہوں نے 6؍ ماہ تک لیت و لعل سے کام لیا۔
ایک موقع پر عمران خان نے کور کی سربراہی کی شرط کے خاتمے کیلئے رولز میں تبدیلی کی تجویز پیش کی۔ جنرل باجوہ نے ایسی تبدیلی سے انکار کر دیا۔
صدر عارف علوی عمران خان کے روہئے پر محتاط
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی محتاط ردعمل دیا ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ بھی مشکل صورتحال میں پھنس گئے ہیں جنہوں نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ سے اچھے اور قریبی تعلقات رکھے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کو بہت سمجھایا مگر ان کی کاوش بے سودثابت ہوئی ۔ آنے والے دنوں میں عمران خان کیلئے مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔ان کا تکبر اور خبط عظمت ان کیلئے سپیس کم کردے گا۔ نا اہلی کی تلوار ان کے سر پر لٹک رہی ہے۔