20 سال قبل جب عامر لیاقت حسین نے خود کشی کی کوشش کی

معروف ٹی وی شخصیت لیاقت حسین انتقال کر گئے ہیں۔ تاہم انکی زندگی سے جڑے وہ پہلو جو اب تک انکی ولولہ انگیز زندگی میں نظر انداز تھے وہ اب سامنے آنے لگے ہیں۔ اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے عامر لیاقت نے آج سے 20 برس قبل خود کشی کی کوشش کی تھی جو کہ اپنی والدہ سے تلخ کلامی کے بعد کی۔ یہ تلخ کلامی اور انکی پہلی بیوی کے درمیان کیا تعلق تھا۔ یہ آپ تحریر پڑھ کر ہی جان پائیں گے۔
عامر لیاقت کے دیرینہ دوست جعفر رضوی نے بی بی سی کے لیئے لکھے گئے اپنے آرٹیکل اس وا قعے کا احوال کچھ یوں لکھا ہے۔
گاڑی جیسے ہی آغا خان ہسپتال کے شعبۂ حادثات کے دروازے پر رُکی تو ہم سب اُترے اور قریباً بھاگتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔جو پہلی شکل مجھے دروازے پر پریشان حال نظر آئی وہ عامر لیاقت حسین کی (پہلی) اہلیہ بشریٰ صاحبہ کی تھی۔
انھیں دیکھتے ہی میں احمد جمال کی طرف مڑا۔ ’عامر لیاقت؟‘ میرے لہجے میں شدید حیرت تھی۔
’جی۔۔۔‘ احمد جمال نے جھینپے جھینپے لہجے میں بات ٹالنے کی کوشش کی۔ہوا کیا ہے؟‘ میں نے پوچھا۔
’خودکُشی کی کوشش۔۔۔‘ احمد نے چلتے چلتے بتایا۔ تب تک ہم وارڈ کے تقریباً اندر پہنچ چکے تھے۔ اندر کا منظر کوئی بہت خوش کُن نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ کسی ہسپتال کے شعبۂ حادثات میں ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔
اندر میرے دیرینہ دوست اور تب ’ایف ایم 101‘ نامی ریڈیو کے میزبان اور (جلد ہی لانچ ہونے والے) جیو نیوز ٹی وی کے ممکنہ میزبان عامر لیاقت ایک بیڈ پر سُکڑے ہوئے قریباً بے ہوش حالت میں پڑے تھے۔
میں اور عامر لیاقت حسین دونوں ہی کچھ دن بعد لانچ ہونے والے جیو نیوز کے لیے بطور صحافی منتخب ہو چکے تھے۔
کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی اندر کا کرائم رپورٹر پوری طرح صورتحال کو قابو میں کرنا چاہتا تھا۔
میں نے وہاں کھڑے ایک نوجوان ڈاکٹر سے پوچھا ’کیا صورتحال ہے؟‘
نوجوان ڈاکٹر نے بتایا ’سٹمک (معدہ) واش کر دیا ہے سر مگر لیگزوٹنل (نیند آور سکون بخش سمجھی جانی والی دوا) کی 20 گولیاں کھا لی تھیں سر۔۔۔ اس لیے ابھی کچھ دیر تک ایسے ہی سوتے رہیں گے!‘
تب میری سمجھ میں آیا کہ قصّہ کیا تھا۔
دراصل عامر لیاقت حسین نے خودکُشی کی کوشش کی تھی مگر بروقت ہسپتال پہنچا دیے گئے تھے جہاں ڈاکٹرز نے اُن کا معدہ صاف کر کے دوا کا اثر تو زائل کر دیا تھا مگر چونکہ اقدام خودکُشی پاکستانی قانون کے تحت جرم تھا لہٰذا پولیس کیس بن گیا تھا اور ظاہر ہے کہ ہسپتال کے ڈاکٹرز نے مزید تفتیش یا قانونی کارروائی کے لیے پولیس کو بلوایا ہوگا جو (ہمارے وہاں پہنچ جانے تک) نہیں آ سکی تھی۔
بس چونکہ عامر لیاقت میرے زمانۂ طالب علمی کے دوست بھی تھے لہٰذا اب مجھے ڈاکٹر عامر لیاقت کو وہاں سے ’بحفاظت‘ نکالنا بھی تھا۔ میں پھر بتا دوں کہ مجھے آج تک نہیں پتا کہ کون ایسا چاہتا تھا اور مجھے یہ ہدایت کس نے دی تھی۔
تب ہی میں نے اپنے تحکمانہ انداز سے صورتحال پر حاوی ہونے کا فیصلہ کیا اور ہسپتال کے ماحول کے مطابق کارروائی کی۔
’اٹھاؤ، اور گاڑی میں ڈالو۔۔۔‘ میری بات سُن کر ڈاکٹر اور عامر لیاقت کی (اہلیہ) بشریٰ دونوں ہی ششدر رہ گئے مگر شاید میرے لہجے کی وجہ سے کسی نے کوئی سوال جواب کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یوں وہ گھر تک جا پہنچے۔ رات کے باقی حصّے میں ملنے والی معلومات کے مطابق (شاید) والدہ کی مرضی کے خلاف شادی کر لینے والے عامر لیاقت حسین کی اپنی والدہ (بیگم محمودہ سلطانہ) سے کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی تھی جس کے بعد انتہائی دلبرداشتہ عامر لیاقت حسین نے خواب آور دوا کی 20 گولیاں کھا کر خودکُشی کی کوشش کی تھی۔
وہ دوا کھاتے ہی گھر سے نکل آئے تھے اور نہ جانے کیسے قریب واقع پاکستان ٹیلی ویژن سینٹر (کراچی سٹیشن) کے قریب سڑک پر کسی ٹیکسی ڈرائیور کو بے ہوش حالت میں ملے تھے، جو جان بچانے اور انھیں طبّی امداد بہم پہنچانے کی غرض سے آغا خان ہسپتال لے آیا تھا اور وہاں طبّی امداد کے دوران ڈاکٹرز کا اندازہ ہوا کہ دوا کی اتنی زیادہ مقدار کھانے سے ایسا ہوا اور یہ اقدامِ خودکُشی ہی ہو سکتا ہے۔