تازہ ترینٹریفک اپ ڈیٹریاست اور سیاست

سوات اجڑ گیا اور تحریک انصاف کے دونوں اراکین اسمبلی ملک سے فرار

سوات میں تاریخ کے بد ترین سیلاب سے تباہی کے باوجود علاقے سے منتخب اراکین صوبائی و قومی اسمبلی کے موجود نہ ہونے پر مقامی لوگ سخت نالاں نظر آتے ہیں۔

ضلع سوات سے کے پی صوبائی اسمبلی میں تحریک انصاف کے 8 ارکان ہیں، جس میں وزیراعلیٰ محمود خان بھی شامل ہیں، جبکہ ضلع سے تمام 3 ایم این ایز کا تعلق بھی پی ٹی آئی سے ہے، جن میں سابق وفاقی وزیر مراد سعید، ایم این اے ڈاکٹر حیدر علی اور ایم این اے سلیم الرحمان شامل ہیں۔

 سیلاب میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی تحصیل بحرین سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی میاں شرافت علی اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر حیدر علی علاقے میں موجود ہی نہیں۔

ذرائع کے مطابق دونوں ارکان غیر ملکی دورے پر ہیں، میاں شرافت علی جرمنی جبکہ ڈاکٹر حیدر علی انگلینڈ میں موجود ہیں۔ اور سیلاب کی تباہی کے باوجود بھی علاقے میں نہ پہنچ سکے۔

سابق وفاقی وزیر اور سوات سے منتخب ایم این اے مراد سعید گزشتہ اتوار کو وزیراعلیٰ محمود خان کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں آئے اور واپس چلے گئے، جس کے باعث مقامی لوگوں میں غصہ پایا جاتا ہے۔

بحرین سے کالام تک سڑک دریا برد ہوگئی ہے جبکہ علاقے میں کئی رابطہ پل بھی تباہ ہوگئے ہیں، جس کے باعث بالائی علاقوں میں اشیائے خور و نوش اور ادویات کی کمی سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

گلی محلوں میں پانی سے محفوظ کوئی جگہ نظر نہیں آتی۔ پانی کے اندر ڈوبتے انسان اپنی زندگی کو بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے دکھائی دیتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کے ساتھ مکانوں کی چھتوں پر محصور نظر آتے ہیں اور سڑکوں پر گاڑیوں کی جگہ کشتیاں چلتی نظر آتی ہیں۔

25 اگست کو کوہستان کی وادی دوبیر کے پانچ نوجوانوں کے سیلاب میں بہہ جانے کی خبریں سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونا شروع ہوئیں تو اس وقت تک  پاکستانی ٹی وی چینلوں کی سکرین پر شاید سیلاب کی کوریج کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی تھی۔

اگلے دن جب سوات کے بڑے سیاحتی مقام کالام میں ایک ہوٹل کی عمارت کے گرنے کے مناظر ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوئے تو یہ وہ لمحہ تھا کہ پاکستانی ٹی وی چینلز کے لیے سیلاب بھی اہم ہوگیا۔

ماہرین ماحولیات اور موسمیات کے ماہرین کے مطابق اس سال جون میں ہی حکومتی سطح پر متعدد بار وارننگ جاری کی گئی تھی کہ ضلعی انتظامیہ سیلاب جیسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پیشگی انتظامات کر لیں۔

وسط جولائی سے شروع ہونے والے بارشوں کے سلسلے سے بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقے جب زیر آب آنے شروع ہوئے تو خیبر پختونخوا میں عمومی طور پر سیلاب کا امکان بھی نظر نہیں آرہا تھا۔

محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں اس سال 44 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ ضلع سوات کی چار تحصیلیں، بحرین، خوازہ خیلہ مٹہ اور مینگورہ براہ راست سیلاب کی زد میں آئیں۔ اس ضلعے میں سب سے زیادہ  نشانہ بننے والی تحصیل بحرین  کی آبادی 248474 افراد پر مشتمل ہے اور اس کا رقبہ 2899 مربع کلومیٹر ہے۔ اس تحصیل میں کل مکانات کی تعداد 29975 ہے۔

تحصیل بحرین کی شہری آبادی 61,787 اور دیہات سے تعلق رکھنے والی آبادی کی تعداد 186,687 ہے۔ بری طرح متاثرہ ہونے والے علاقوں میں مدین بازار، تیرات، بشیگرام، چیل، بحرین بازار، کیدام، چم گڑھی، لائیکوٹ، پشمال، آریانی، کالام، اتروڑ، گبرال، مٹلتان، پلوگاہ کے علاقے شامل ہیں۔

ضلع سوات کے مختلف علاقوں میں 15 افراد ہلاک اور سینکڑوں مکان تباہ ہو گئے ہیں۔ حالیہ سیلابی ریلوں نے یونین کونسل اتروڑ، کالام، مٹلتان، چیل، کیدام، آریانی اورگبرال کی رابطہ سڑکوں اور پلوں کو نقصان پہنچایا، جس کے نتیجے میں مدین سے کالام تک 18 ارب روپے کی لاگت سے بنائی جانے والی قومی شاہراہ بھی جگہ جگہ سے پانی میں بہہ گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں مدین سے کالام تک زمینی راستہ منقطع ہو گیا ہے اور ذرائع آمد و رفت محدود ہو گئے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے گذشتہ تین روز میں مدین سے بحرین تک کا راستہ کھول دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button