اعظم سواتی متنازعہ ٹوئٹس پر گرفتار، عالمی سطح پر سائبر کرائم کی کھلبلی

(سوجھل مہتاب)پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما، سینیٹر اعظم خان سواتی کو گرفتار کرلیا گیا۔
ذرائع کے مطابق سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف رات گئے مقدمہ درج کر کے ایف آئی اے کے سائبر کرائمز سیل کی جانب سے گرفتار کیا گیا ہے۔
اعظم سواتی کو اسلام آباد میں اُن کے گھر سے حراست میں لیا گیا۔
ذرائع کے مطابق اعظم سواتی کو ان کے متنازعہ ٹوئٹس پر گرفتار کیا گیا ہے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ اعظم سواتی پر اداروں کے خلاف بیان دینے اور لوگوں کو اشتعال دلانے جیسے الزامات ہیں۔
اعظم سواتی کی بیٹی کی جانب سے والد کی گرفتاری کی تصدیق کی گئی ہے۔
ڈیپ فیک ویڈیو ایک عالمی تنازعہ
دوسری جانب ریاستوں کے سربراہان بھی ڈیپ فیک ویڈیوز کا نشانہ بن چکے، سابق امریکی صدور، موجودہ یوکرینی صدر سمیت دیگر خوش قسمت جنہیں جنسی مواد میں شامل نہیں دکھایا گیا۔
تفصیلات کے مطابق جیسا کہ مشکلات کا شکار سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو خدشہ ہے کہ جلد ہی کسی بھی وقت ہونے والے ان کے اسلام آباد مارچ کے لیے ان کے سیاسی دشمن ڈیپ فیک ویڈیوز کے ذریعے ان کی عوامی امیج کو خراب کر سکتے ہیں، تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ان کے خدشات سچ ہو جاتے ہیں تو وہ ٹیکنالوجی کے منفی استعمال کا نشانہ بننے والے پہلے ہائی پروفائل نہیں ہوں گے۔
سابق امریکی صدور ڈونلڈ ٹرمپ اور براک اوباما، موجودہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی، ہالی ووڈ کے نامور اداکار ٹام کروز اور فیس بک کے بانی مارک زکربرگ وغیرہ سبھی اس ٹیکنالوجی کا نشانہ بن چکے ہیں۔
تاہم خوش قسمتی سے مذکورہ بالا حکمرانوں یا عالمی سطح پر مشہور شخصیات میں سے کسی کو بھی جنسی طور پر واضح مواد میں شامل نہیں دکھایا گیا، اگرچہ ڈیپ فیکس کو آج کل انتقامی فحش نگاری کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
20 فروری 2018 کو ’فاکس نیوز‘ کے رپورٹر نے آن ایئر تبصرہ کیا تھا کہ ڈیپ فیکس جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہے ہیں۔پروگرامرز ماخذ کی تصاویر کو ایک فحش فلم میں ڈالنے کیلئے موجودہ ویڈیو اور مشہور شخصیات، عوامی شخصیات، یا کسی ایسے شخص کی تصاویر کا استعمال کرتے ہیں جن کو وہ جانتے ہیں۔ اس کے بعد نیوز چینل نے ایمی ایوارڈ کے لیے نامزد ہالی ووڈ اسٹوڈیو کے ایگزیکٹو کا حوالہ دیا تھا کہ یہ ایک مشہور شخصیت کے لیے بہت خطرناک ہے کیونکہ ٹیکنالوجی اتنی اچھی ہے کہ تقریباً تمام ناظرین یہ سمجھ لیں گے کہ وہ ویڈیو، جسے وہ دیکھ رہے ہیں، حقیقی ہے اور وہ جو بھی جذبات محسوس کرتے ہیں اس کو اس مشہور شخصیت سے منسوب کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ سب صرف ویڈیوز کے بارے میں نہیں ہے۔
یہ ٹیکنالوجی شروع سے ہی قائل کرنے والی لیکن مکمل طور پر خیالی تصاویر بنا سکتی ہے اور عوامی شخصیات کے آڈیو ڈیپ فیک ہو سکتے ہیں۔مثال کے طور پر برطانوی میڈیا ہاؤس ’گارڈین‘ نے تقریباً دو سال پہلے یہ خبر دی تھی کہ ایک جرمن انرجی فرم کے برطانوی ذیلی ادارے کے چیف نے جرمن سی ای او کی آواز کی نقل کرنے والے ایک جعلساز کی جانب سے فون کیے جانے کے بعد ہنگری کے ایک بینک اکاؤنٹ میں تقریباً 2 لاکھ پاؤنڈز کی ادائیگی کی تھی۔ کمپنی کے بیمہ کنندگان کا خیال ہے کہ آواز ڈیپ فیک تھی لیکن شواہد واضح نہیں تھے۔
اسی طرح کے سکیمز میں مبینہ طور پر ریکارڈ شدہ واٹس ایپ وائس پیغامات کا استعمال کیا گیا ہے۔ اپنی ایک جعلی ویڈیو میں سابق امریکی صدر ٹرمپ کو پیرس موسمیاتی معاہدے میں باقی رہنے پر بیلجیئم پر طنز کرتے ہوئے دیکھا اور سنا گیا۔ امریکی اداکار ٹام کروز کے معاملے میں ایک ٹک ٹاک اکاؤنٹ مکمل طور پر ان کے لیے وقف تھا۔
اداکار کی آواز اور اسلوب کو سب سے زیادہ قابل اعتماد طریقوں سے فریم میں کاپی کیا گیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل یونیورسٹی آف واشنگٹن کے کمپیوٹر سائنس دانوں نے صدر اوباما کے منہ کی شکل بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا اور ان کے ہونٹوں کی حرکت کو آڈیو ان پٹ سے ہم آہنگ کیا۔
f اس کے بعد فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کی تحریف کی گئی ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ اس بات پر فخر کر رہے تھے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم اس کے صارفین کی ’مالک‘ کیسے ہے۔