ورلڈ اپ ڈیٹ

بھارت کے ساتھ خارجہ تعلقات میں بہتری کے خواہشمند طالبان بھارت کے ساتھ عسکری معاہدہ چاہتے ہیں

طالبان کے وزیر دفاع ملا یعقوب نے کہا کہ انہیں بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات بحال کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پہلے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہونے چاہییں۔

انڈین ٹی وی سی این این نیوز-18 سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اگر دونوں حکومتوں کے درمیان تعلقات معمول پر آتے ہیں تو طالبان افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت کے لیے انڈیا بھیجنے کے لیے تیار ہے۔‘

ملا یعقوب نے حکومت ہند سے کابل میں اپنا بند سفارت خانہ دوبارہ کھولنے اور طالبان سفیر کو نئی دہلی میں افغان سفارت خانہ سنبھالنے کی اجازت دینے کا بھی مطالبہ کیا۔

وزیر دفاع نے کہا ہے کہ اگر انڈیا اپنے سفارتی عملے کو افغانستان واپس بھیجتا ہے تو طالبان کسی بھی قسم کی حفاظتی ضمانت دینے کے لیے تیار ہیں۔ اس سے قبل یہ بات دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بھی کہی تھی۔

ملا یعقوب نے سی این این نیوز 18 کے ساتھ انٹرویو کے دوران اس بات کا اعادہ کیا کہ طالبان حکومت ہند سمیت دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہاں ہے۔

ہم نے طالبان کے بانی و قائد ملا عمر کے بیٹے اور طالبان کے وزیر دفاع ملا یعقوب کے اس بیان کے بارے میں بی بی سی مانیٹرنگ کے افغان امور کے ماہر طارق عطا سے بات کی جن کا کہنا ہے کہ طالبان اور افغانستان میں مایوسی کا عالم ہے اور معاشی سرگرمیاں تقریباً ٹھپ پڑی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ایسے میں طالبان کی شدید خواہش ہے کہ دنیا انھیں تسلیم کرے کیونکہ ابھی تک کسی بھی ملک نے افغانستان میں طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر قبول نہیں کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے بھی اسے تسلیم نہیں کیا گیا چنانچہ وہ پاکستان سمیت دنیا کے تمام مسلم ممالک سے خصوصی طور پر اپیل کر رہے ہیں۔ انھوں نے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی سے بھی یہ اپیل کی ہے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے تاکہ افغانستان میں معاشی سرگرمی شروع ہو سکے، آخر کوئی ملک انسانی بنیاد پر دی جانے امداد پر کتنے دن گزر کر سکتا ہے۔

طارق عطا نے کہا کہ ’جہاں تک سکیورٹی فورسز کو تربیت دینے کی بات کہی گئی ہے تو یہ بڑی بات ہوگی کیونکہ پاکستان کو یہ بالکل قابل قبول نہیں ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ٹیکنیکل قسم کی تربیت تو طالبان سے قبل بھی دی جاتی رہی ہے لیکن باضابطہ سکیورٹی فورسز کی تربیت کچھ زیادہ ہے۔‘

طارق عطا نے کہا کہ افغانستان میں انڈیا اور پاکستان کے متعلق عوام میں دو واضح دھڑے ہیں۔ ایک پاکستان کا حامی ہے تو دوسرا انڈیا کو پسند کرتا ہے۔

انڈیا کی جانب سے پہلی بار باضابطہ طور پر طالبان کے افغانستان میں وفد گیا ہے جو کہ بظاہر انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد کا جائزہ لینے کے لیے ہے لیکن اس کے علاوہ بھی انڈیا کی افغانستان میں دلچسپی رہی ہے۔

اس سے قبل اس نے دوحہ میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات تھی اور گذشتہ دنوں انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں تھے اور انھوں نے کہا تھا کہ انڈیا کا افغانستان کے ساتھ خصوصی رشتہ ہے اور وہ برقرار رہے گا۔

دوشنبے میں علاقائی سکیورٹی کے متعلق اجلاس ہوا جس میں انڈیا کے علاوہ چین، ایران، قزاقستان، کرغیزستان، روس، ازبکستان اور تاجکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ریاستی سکیورٹی کونسل کے سربراہوں نے شرکت کی تھی۔

ہندوستان ٹائمز میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ڈوول نے کہا کہ ’افغانستان کے لوگوں کے ساتھ صدیوں پر محیط خصوصی تعلقات انڈیا کے نقطہ نظر کی رہنمائی کریں گے۔ اسے کچھ نہیں بدل سکتا۔‘

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے طارق عطا نے کہا کہ تاریخی طور پر انڈیا کے افغانستان سے اچھے اور قریبی تعلقات رہے ہیں اور طالبان کے پہلے دور کے بعد انڈیا نے وہاں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ انڈیا نے بہت سے تعمیری پروجیکٹ مکمل بھی کیے ہیں تاہم بہت سے ابھی ادھورے ہیں۔ اگر انڈیا اپنے منصوبے کو دوبارہ شروع کرتا ہے تو بہت سے افغانوں کو اس سے معاشی سہارا ملے گا۔

سی این این نیوز 18 کے ساتھ انٹرویو میں ملا یعقوب نے گذشتہ چند مہینوں کے دوران افغانستان کے لیے انسانی امداد فراہم کرنے پر انڈیا کا شکریہ ادا کیا ہے۔

انڈیا کی وزارت خارجہ کی پریس ریلیز کے مطابق جوائنٹ سیکریٹری جے پی سنگھ کی قیادت میں ایک وفد کابل پہنچا ہے جو کہ امدادی اشیا کی تقسیم میں مشغول بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقات کرے گا۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button