فن و فنکار

قہقہوں کی برسات کرنے والے لہری کو بچھڑے دس برس بیت گئے

( مانیٹرنگ ڈیسک ) پاکستان کے مشہور مزاحیہ اداکار ’’لہری‘‘ کو مداحوں سےبچھڑے 10سال بیت گئے۔

لہری صاحب کا نام سفیر اللہ صدیقی تھا لیکن فلمی دنیا میں انہوں نے لہری کے نام سے شہرت حاصل کی۔

انہوں نے فلمی دنیا میں اپنے سفر کا آغاز فلم ’’انوکھی‘‘ سے کیا جو 1956 میں ریلیز ہوئی۔

لہری کا فلمی سفر 1950 سے 1980 تک جاری رہا۔ ان کی آخری فلم ’’دھنک‘‘ تھی جو 1986 میں بنی تھی۔

ایک اندازے کے مطابق انہوں نے 220 فلموں میں کام کیا جن میں تین پنجابی فلموں کے علاوہ باقی سب اردو فلمیں تھیں۔

مرحوم اداکار لہری کو 1964 سے 1986 تک کا بہترین مزاحیہ اداکار قرار دیتے ہوئے نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔

یہ وہ پہلے مزاحیہ اداکار تھے جنہوں نے اپنی عمدہ کاکردگی سے لگاتار 11 نگار ایوارڈز اپنے نام کیے۔

لہری نے فلمی دنیا کے علاوہ ڈراموں اور اسٹیج شو میں بھی اپنے منفرد مزاحیہ اداکاری سے سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیری۔

چہروں پر مسرتیں اور کھلکھلاہٹ بکھیرنے والے سفیر اللہ صدیقی عرف لہری شدید علالت کے باعث کراچی میں 13 ستمبر 2012 کو دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔

لہری صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے مہران سفیر نے بتایا کہ ابا جان اداکار بننے سے پہلے ٹائپسٹ اور سٹینو گرافر تھے۔

’وہ بتاتے تھے کہ ٹائپنگ کرتے ہوئے میری سپیڈ بہت زیادہ تھی، اُدھر میرے باس لفظ اور جملہ ادا کرتے اِدھر میں جملہ چھاپ کر فل سٹاپ لگا دیا کرتا تھا۔‘

لہری پیدائشی طور پر بذلہ سنج اور جملہ باز تھے۔ مہران سفیر بتاتے ہیں کہ ’ابا (لہری صاحب) کی یہ صلاحیت اس وقت تک قائم رہی جب تک وہ ہوش میں رہے۔‘

ذیابیطس کی زیادتی کی وجہ سے زندگی کے آخری دنوں میں ان کے دونوں گھٹنے کاٹ دیے گئے تھے، دل کے عارضے کے باعث ان کی اوپن ہارٹ سرجری کے علاوہ پروسٹیٹ کا آپریشن بھی ہوا لیکن ان تمام طبی پیچدگیوں کے باوجود لہری صاحب کی زندہ دلی برقرار رہی۔

انھوں نے اپنے کریئر کا آغاز ون مین شو سے کیا۔ ایک شو سے انھیں 30 روپے ملتے تھے جسے وصول کرنے کے بعد لہری کو اس دن مزید پیسے کمانا پسند نہیں تھا۔ انھیں اپنے لیے فلموں میں کام کرنا بھی پسند نہیں تھا لیکن جب فلم انڈسٹری کا حصہ بنے تو بہترین کامیڈین کے 11 ایوارڈ اپنے نام کیے۔

یہ لہری صاحب کا ایک منفرد ریکارڈ ہے جسے کوئی دوسرا توڑ نہیں سکا۔ جن فلموں کے لیے انھیں ایوارڈ دیے گئے ان میں دامن، پیغام، کنیز، میں وہ نہیں، صاعقہ، نئی دلہن، انجمن، دل لگی، آج اور کل، نیا انداز، صائمہ اور بیوی ہو تو ایسی شامل رہیں۔

لہری صاحب کو فلموں میں کراچی سے لاہور لانے کا سہرا پنجابی فلموں کے ولن تایا الیاس کشمیری کے سر ہے۔

لہری صاحب یہ قصہ سناتے بڑا نقشہ باندھا کرتے تھے۔ الیاس کشمیری ایک فلم پروڈیوس کر رہے تھے ’عشق پر زور نہیں‘ کراچی میں ان سے ملاقات ہوئی اور طے پایا کہ وہ ریل کا سیکنڈ کلاس ٹکٹ اور لاہور میں درمیانے درجے کا ہوٹل فراہم کریں گے۔

بعض فلمی نقاد ان کی ایکٹنگ کو انڈر ایکٹنگ کہتے تھے۔ بہرحال وہ ایک لاثانی کامیڈین تھے۔ بالکل اسی طرح ظریف، منور ظریف، ننھا اور علی اعجاز نے مزاحیہ اداکاری میں مکالموں کی برجستگی کو خاصہ بنایا۔ یہ اداکار بات سے بات نکالنے میں ماہر تھے اور ان کی بے ساختہ اداکاری بڑا گہرا تاثر چھوڑتی تھی۔ لہری نے رنگیلا، منور ظریف اور ننھا کے ساتھ بھی متعدد فلموں میں کام کیا۔ منور ظریف کے ساتھ ان کی دو فلموں’’شرارت اور پیار کا موسم‘‘کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا’’ پیار کا موسم‘‘ میں انہوں نے ایک تھیڑ کے مالک کا کردار ادا کیا جو اپنی کمپنی کی ہیروئن سے خاموش محبت کرتا ہے اور اسی غلط فہمی میں مبتلا رہتا ہے کہ وہ ہیروئن اس سے شادی کرنے پر رضامند ہو جائے گی۔ لیکن اس کے خواب اس وقت چکنا چور ہو جاتے ہیں جب وہ ہیروئن اسے یہ بتاتی ہے کہ وہ اسی تھیڑ کے ایک ساتھی اداکار سے محبت کرتی ہے۔ اس پر وہ مالک بڑے صبر اور حوصلے کا ثبوت دیتا ہے اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان دونوں کے راستے سے ہٹ جاتا ہے۔ اس فلم میں لہری نے کامیڈی بھی کی اور ایک ’’شریف النفس‘‘ ولن کا کردار بھی ادا کیا۔1986ء میں لہری پر بیماریوں نے حملہ کر دیا۔ ان کی آخری فلم زیبا بختیار کی ’’بابو‘‘ تھی۔ وہ طویل عرصے تک بستر علالت پر رہے۔ وہ ذیابیطس، پھیپھڑوں اور گردوں کی بیماری میں مبتلا تھے۔13ستمبر 2012ء کو فرشتہ اجل آن پہنچا اور وہ عالم جاوداں کو سدھار گئے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button