ریاست اور سیاستتھانہ کچہریقومی

قانون کے دائرہ کار میں احتجاج کا حق نہیں چھینا جا سکتا، چیف جسٹس

(سفیان سعید خان)چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ کسی سے احتجاج کا حق چھینا نہیں جا سکتا، احتجاج آئینی حق ہے، جو قانون کے دائرے کے اندر ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت کی عمران خان کا لانگ مارچ فوری روکنے کی استدعا کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ حکومت کے پاس قانون کی خلاف ورزی پر کارروائی کا اختیار ہے، حفاظتی اقدامات کرنا حکومت کا کام ہے، وہ کرے، عدالت صرف چاہتی تھی کوئی ظالمانہ اقدام نہ کیا جائے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ عمران خان کا لانگ مارچ روکنے کی درخواست اب مؤثر ہو گئی کیونکہ وہ دوبارہ آ رہے ہیں، جسٹس یحی آفریدی نے پہلے ہی فیصلے میں کہا تھا عدالت سے آپ یہ کیا مانگنے آگئے ہیں؟عدالت ایگزیکٹو نہیں ہے نہ بننا چاہتی ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ احتجاج کے دوران بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر قانون واضح ہے، سیاسی معاملات میں عدالتوں کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے، ہم صرف یہ دیکھ سکتے ہیں قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی نہ ہو، حکومت خود اقدامات کرے، پارلیمنٹ اصل فورم ہے۔

چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا ہے کہ احتجاج عمران خان کی سیاسی حکمت عملی ہے، ہم اسے اچھا کہہ سکتے ہیں نہ برا، سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی، ہم نے اپنے فیصلے میں کہا تھا عدم اعتماد کی موجودگی میں اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیرآئینی کے بعد جو کچھ ہوا وہ سیاسی عمل ہے، سپریم کورٹ اپنے قلم کو چھڑی کے طور پر استعمال نہیں کر سکتی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی عمران خان کا لانگ مارچ فوری روکنے کی استدعا مسترد کر دی ہے۔

توہین عدالت کے کیس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس یحیٰ آفریدی نے عمران خان کو شو کاز جاری کر دیا۔

سپریم کورٹ کے بنچ میں شامل بقیہ چار ججز نے توہین عدالت کیس میں عمران خان سے جواب طلب کرلیا۔

عدالت نے حکم جاری کرتے ہوئے ہدایت دیں کہ آئی ایس آئی،آئی بی اور پولیس رپورٹس بھی عمران خان کوفراہم کی جائیں اور تینوں رپورٹس کی روشنی میں عمران خان جواب دیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ فی الحال توہین عدالت نوٹس جاری نہیں کر رہے، نوٹس جاری کرنے سے تاثرجاتا ہے توہین عدالت کی کاروائی شروع ہوگئی. 

رپورٹس میں اتنا جواز موجود ہے کہ عمران خان سے جواب مانگا جائے.

چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ عمران خان کے بیان سے لگتا ہے انہیں عدالتی حکم سے آگاہ کیا گیا کیونکہ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے رکاوٹیں ہٹانے کا کہا ہے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ عمران خان کو کیا بتایا گیا اصل سوال یہ ہے، عمران خان  آکر عدالت کو واضح کر دیں کس نے کیا کہا تھا.

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی ڈی چوک کال توہین عدالت ہے۔ 

انہوں نے مختص مقام ایچ نائن سے 4 کلو میٹر آگے آکر بلیو ایریا میں  26 مئی کو صبح جناح ایونیو پر 6 بجے ریلی ختم کی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بابراعوان، فیصل چوہدری نے عمران خان کی طرف سے یقین دہانی کروائی تھی کہ سڑکیں بلاک ہوں گی نہ مختص مقام سے آگے جائیں گیے۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی بات میں وزن ہے، نوٹس میں یقین دہانی کا ذکر ہے لیکن تحریری طور پرکہاں ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ عدالت نے فیصل چودھری اور بابر اعوان کو عمران خان سے ہدایات لینے کا کہا تھا۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ مناسب ہوگا حکومتی الزامات پر یقین دہانی کرانے والوں سے جواب مانگ لیں۔ تحریری مواد نہ ہو تو کسی کو بلانے کا فائدہ نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر نوٹس بھی کریں تو عمران خان کا پیش ہونا ضروری نہیں ہے، سرخیاں نہیں بنوانا چاہتے، بلکہ قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔ سول نوعیت کی توہین عدالت میں شوکاز پر ہی پیش ہونا پڑتا ہے۔

جسٹس یحیٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ نوٹس کے بغیر کسی سے جواب نہیں مانگا جاسکتا.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کسی سے احتجاج کا حق چھینا نہیں جاسکتا۔ عدالت صرف چاہتی تھی کوئی ظالمانہ اقدام نہ کیا جائے۔

حکومت کے پاس قانون کی خلاف ورزی پرکارروائی کا اختیار ہے، حفاظتی اقدامات کرنا حکومت کا کام ہے،وہ کرے۔

جسٹس یحیٰ آفریدی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا بہتر ہوگا لانگ مارچ روکنے کی درخواست واپس لے لیں ورنہ اس کے قانونی اثرات ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اپنے لیے پیچیدگیاں کیوں بنارہے ہیں؟ لانگ مارچ روکنے کی درخواست پرحکومت سے ہدایات لینے کیلیے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے وقت مانگ لیا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے عمران خان کے وکلا بابراعوان, فیصل چودھری سے بھی جواب طلب کرلیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ جسٹس یحیی آفریدی نے پچھلے اختلافی نوٹ کے مطابق عمران خان کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔ عمران خان اور ان کے وکلا 31 اکتوبر تک جواب جمع کرائیں۔

عدالتِ عظمٰی نے کیس کی سماعت 31 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button