تعلیم و صحت

طلبہ ڈٹ گئے،لاہور میں یونین بحالی دھرنے کا ایک ہفتہ مکمل،مطالبات منظور ہونے تک دھرنا ختم نہ کرنے کا اعلان

(شیتل ملک ) لاہور میں شدید سردی کے باوجود پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کا دھرنا جاری ہے اور پنجاب اسمبلی کے سامنے اس دھرنے کو ایک ہفتہ مکمل ہو گیا ہے۔

پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے دھرنے میں اسی کی دہائی سے پابندی کا شکار سٹوڈنٹ یونینز کی بحالی کا ایجنڈا سر فہرست ہے ۔ اسکے علاوہ 22 لاکھ کی آبادی والے ضلع پاک پتن میں بابا فرید یونیورسٹی کے قیام سمیت دیگر 7 مطالبات شامنل ہیں۔

9 فروری سے پنجاب اسمبلی کے سامنے جاری اس احتجاجی دھرنا میں گلگت بلتستان کے ترقی پسند رہنماوں بابا جان اور شبیر میار، حقوق خلق موومنٹ کے رہنماوں فاروق طارق، عمار علی جان، ایڈووکیٹ حیدر بٹ اور مزمل خان، کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی ہزارہ رہنما ایڈووکیٹ جلیلہ حیدر اور پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے سابق صدر محسن ابدالی اور بانی رکن عروج اورنگزیب سمیت سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔

طلبا تنظیم کی جانب سے احتجاج اور دھرنے کے لئے 9 فروری کا دن اس لئے چنا گیا کیونکہ 1984 کو اسی روز ضیا الحق نے اطلبا تنظیموں پر پابندی لگائی تھی۔ احتجاجی مظاہرے کے دوران پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے نائب صدر علی رضا نے مظاہرے اور دھرنے کے مقاصد بتاتے ہوئے کہا کہ اس احتجاج کا مقصد آمرایت اور اس کے اقدامات کو رد کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ طلبہ یونین پر پابندی کی وجہ سے نا صرف ہمارا ملک مسلسل سیاسی قیادت سے محروم رہا ہے بلکہ جامعات میں طلبہ کے مسائل بھی انتہائی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ ایک طرف نمائندگی نہ ہونے کے باعث جہاں طلبہ کو کیمپس پر صاف پانی، علاج، ہراسگی کیمیٹیوں اور ٹرانسپورٹ جیسی سہولیات حاصل نہیں وہیں اس منظم آواز کی کمی کی وجہ سے تعلیم کی نجکاری معمول بن چکی ہے۔ ان حقوق کو حاصل کرنے کے لیے طلبہ یونین ضروری ہے اور اسی کے لیے آج ہم سڑکوں پر ہیں۔حقوق خلق موومنٹ کے رہنما فاروق طارق کا کہنا تھا کہ آج میں طلبہ میں وہی جذبہ دیکھ رہا ہوں جو ستر اور اسی کی دہائی میں طلبہ کی مزاحمت میں نظر آتا تھا اور مجھے یقین ہے کہ یہ طلبہ اپنا حق لے کر رہیں گے۔

ترقی پسند سوچ کے حامی افراد اور تنظیمیں دھرنے پر بیتھے طلبا سے اظہار یکجہتی کے لئے انکے کیمپ کا دورہ کرتے ہیں

پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کی بانی رکن عروج اورنگزیب نے آزادی اظہار پر پابندیوں اور بورثوا جمہوریت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس نظام میں جمہوریت کی بات تو ہوتی ہے لیکن عام طبقے کے لیے اس نظام میں سیاست کرنا ناممکن ہے۔ طلبہ یونین امیروں کے اس سرکل کو توڑنے کا ایک ذریعہ تھی جسے ختم کر کے عام طبقے کے سیاست میں معمولی حصے کو بھی ختم کر دیا گیا۔

پاکپتن میں بابا فرید یونیورسٹی کے قیام دھرنے کے بنیادی مطالبات میں سے ایک ہے

گلگت بلتستان کے رہنما بابا جان نے پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو اور دیگر ترقی پسند طلبہ کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پورے ملک میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص آپ طلبہ ہی ہیں جو اشرافیہ کے جبر کے خلاف منظم مزاحمت کا رستہ ہموار کر رہے ہیں ۔

احتجاجی دھرنا کے مطالبات کیا ہیں؟

طلبا کی جانب سے مطالبات میں طلبہ یونین پر پابندی کا خاتمہ، طلبہ کے علاج معالجہ کی مفت سہولیات، سفری کارڈ پر رعایت، تعلیمی اداروں سے سیکیورٹی فورسز کا انخلا سمیت درج ذیل مطالبات شامل ہیں۔

1۔ طلبہ یونین پر عائد پابندی فی الفور ختم کی جائے۔
2۔ یونیورسٹی داخلے کے وقت طلبہ سے سیاست نہ کرنے کا حلف نامہ آئین کے آرٹیکل 17 سے متصادم ہے اسے فوری ختم کیا جائے۔
3۔طلبہ کو سٹوڈنٹ کارڈ پر ترجیحی بنیادوں پہ مفت معیاری علاج کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
4۔ طلبہ کو ٹرانسپورٹ کرائے کی مد میں 50 فیصد رعایت دی جائے۔ 
5۔ تمام جامعات میں ہراسانی کمیٹیوں کا قیام اور اس میں طلبہ کی نمائندگی یقینی بنائی جائے۔ 
6۔ سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ سمیت ملک بھر سے جبری طور پر گمشدہ تمام طلبہ اور اساتذہ کو رہا کیا جائے۔ مزید برآں تعلیمی اداروں سے رینجرز اور ایف-سی کا انخلا یقینی بنایا جائے۔
7۔ تعلیمی اداروں میں داخلے کے وقت مرد اور عورت کی کیٹیگری کے علاوہ خواجہ سرا کیٹیگری بھی شامل کی جائے اور متجنس افراد ایکٹ 2018 پر عمل یقینی بنایا جائے۔
8.حکومت کی جانب سے اعلان کردہ جامعات کے قیام کا عمل تیز کیا جائے بالخصوص پاکپتن میں بابا فرید یونیورسٹی کا قیام فوری عمل میں لایا جائے۔ 
9۔ تمام جامعات میں فیسوں میں حالیہ اضافہ واپس لیا جائے۔
10۔ ایچ ای سی کی بجٹ کٹوتیاں واپس لی جائیں اور کل جی ڈی پی کا 5 فیصد تعلیم کے لیے مختص کیا جائے۔
11۔ پچھلے سال سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کے ساتھ گورنر پنجاب کی جانب سے سکالرشپس بحالی کا وعدہ پورا کیا جائے اور اسلام آباد میں سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کی جانب سے 265 سیٹوں کی بحالی کے لیے جاری دھرنے کا مطالبہ بھی تسلیم کیا جائے۔
12۔ مقامی میڈیکل گریجوایٹس کے لیے این ایل ای 2 اور فارن گریجوایٹس کے لیے این ایل ای 2 میں مینڈیٹری سٹیشن ختم کیے جائیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button