عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں اپریل 2017 میں گروہی تشدد سے ہلاک ہونے والے مشعال خان کی آج سالگرہ ہے

( اسد شہسوار) عبدالولی خان یونیورسٹی میں 13 اپریل 2017 کو مشتعل ہجوم نے شعبہ صحافت کے طالبعلم مشال خان کو توہین مذہب کے الزام میں قتل کر دیا تھا۔ تشدد کے اس واقعے میں دو طالبعلم زخمی ہوئے تھے
ہلاک ہونے والے طالبعلم مشال خان کے جنازے میں مقامی مسجد کے امام نے ان کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا تھا اور جس جس شخص نے بعد میں نماز پڑھائی اُس سے بھی بعد میں لوگوں نے نماز پڑھانے پر بحث مباحثہ کیا۔
یونیورسٹی میں اس کے کمرے میں ابھی بھی کمیونزم کے بانی کارل مارکس اور کیوبن انقلاب کے رہنما چے گیؤویرا کی تصاویر لگی ہوئی ہیں اور ان دیوار پر ان کے قول درج ہیں جن میں سے ایک پر لکھا ہوا ہے ‘ہمیشہ متجسس ، جنونی اور پاگل رہو۔’
موت سے ایک دن قبل یونیورسٹی میں مشال خان کی ساتھی طالب علموں کے ساتھ گفتگو میں مذہبی بحث چھڑ گئی جس کے بعد مشتعل طلبا نے اس کے ہوسٹل کے کمرے تک اس کے پیچھا کیا اور الزام لگایا کہ اس نے توہین آمیز گفتگو کی ہے۔
عینی شاہدین اور پولیس کے مطابق اس ہجوم نے مشال خان کو ہوسٹل میں اس کے کمرے سے کھینچ کر باہر نکالا اور تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔
مشال خان کو جاننے والوں نے کہا کہ وہ ایک متجسس طبیعت رکھنے والا طالبعلم تھا جس نے ہمیشہ اسلام سے اپنی محبت کا اظہار کیا لیکن ساتھ ساتھ سوالات بھی اٹھاتا تھا۔
اساتذہ کے مطابق وہ اپنا نقطہ نظر ہمیشہ کھل کے بات کرتا تھا لیکن اس کو احساس نہیں تھا کہ وہ کیسے ماحول میں رہ رہا ہے