تجزیہ

محکومی کو پرامن طور پر برداشت کرنا اجتماعی زندگی کا عظیم ترین جرم ہے، مقبول بٹ کے افکار پر ایک نظر

( عاصم ارشاد ) مقبوضہ جموں و کشمیر میں ممتاز کشمیری رہنما محمد مقبول بٹ کی شہادت کی 38 ویں برسی کے موقع پر آج جمعہ مکمل ہڑتال رہی۔

کنٹرول لائن کے دونوں اطراف اور دنیا بھر میں پھیلے کشمیری آج اپنی مٹی کی محبت میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے محبوب شہید کو خراج عقیدت پیش کرتے رہے ۔ اس موقع پر عاصم ارشاد جو کشمیریوں کی حق خود ارادیت کے نعرہ کیساتھ، ایک خود مختار کشمیر کا بیانیہ رکھتے ہیں نے شہید کشمیری لیڈر کی یاد میں انکے کچھ اقوال قلمبند کئے ہیں اور انکی برسی کے موقع پر انکے نطریات کو تک پہنچانے کی سعی کی ہے۔

شہید کشمیر محمد مقبول بٹ کے اقوال :

  • "میرا جرم فرسودگی قدامت پسندی سرمایہ دارانہ استحصالی نظام، غلامی اور ریاکاری کے خلاف جدوجہد ہے”
  • "میں فرسودگی، دولت پسندی ،استحصال، غلامی اور منافقت کے خلاف بغاوت کا مرتکب ہوا ہوں”
  • "محکومی کو پرامن طور پر برداشت کرنا اجتماعی زندگی کا عظیم ترین جرم ہے "
  • ” هم دوستوں کی اعانت کے متمنی ہیں لیکن ایسی جو باہمی عزت اور وقار کی بنیاد پر استوار ہو ہم دوستی چاہتے ہیں کسی کی بالادستی تسلیم نہیں کرنا چاہتے "
  • ” آزادی سے ہمارا مطلب کشمیر کی مقدس دهرتی سے غیر ملکی تسلط کا خاتمہ ہی نہیں بلکہ بهوک، افلاس، جہالت، بیماری، معاشی اور سماجی نا ہمواریوں کو شکست دینا ہے اور ہم ایک دن آزادی حاصل کر کے رہیں گے "
  • ” غلامی کے احساس کو زہنوں سے نکال دو، برادری ازم اور تعصب کی زنجیریں توڑ دو. برادریوں کے جهوٹے فریب سے نکل آو اور مادروطن کشمیر کی آزادی عزت اور خود مختاری کیلے جدوجہد کیلے تیار ہو جاو "
  • ” ہمیں تحریک آزادی کو ایسے خطوط پر استوار کرنا ہے کہ ہماری پکار امن کے ایوانوں میں گونجے بیابانوں میں گهن گرج سنائی دے اور دشت و سحرا ہماری شجاعتوں کی گواہی دینے پر مجبور ہوں "
  • ” میرے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کا مقام کیا ہو سکتا هے کہ حالات کی نامساعدگی اور وقت کا جبر نہ صرف یہ کہ وفا کی ان شمعوں کو بجهانے میں ناکام رہے جن کو ہم نے خون سے روشن کیا بلکہ جلتی شمعوں سے اور بهی کتنے چراخ روشن ہوئے ہیں یہ سلسلہ جاری رہا تو ان شاء اللہ وه دن دور نہیں جب ان چراغوں کی روشنی سارے وطن کو منور کرے گی اور وه نتیجہ وه کفیت برپا ہو گی جسے ہم بجا طور پر آزادی کا چراغاں کہہ سکتے ہیں”
  • ” جدوجہد کا میدان ایک کسوٹی ہے جو حق کے علمبرداروں اور باطل پرستوں کو ہی نہیں بلکہ منافقین کو بهی اصل مقام پر لاکهڑا کرتی ہے”
    "
  • ” اپنی زندگی کی آخری خواہش کے طور پر اپنے نظریاتی ساتهیوں سے کہوں گا کہ حالات خواه کتنے ہی بدترین کیوں نہ ہوں وه ثابت قدم رہیں اور مشترک مقاصد کے حصول کیلے جدوجہد کرتے رہیں””
    .* ” حق پرستی اور حق شناسی کے دعوے رکهنے والوں کے لیے بہترین زندگی وه ہے جو سچائی کا شعور حاصل کر ے اور اس شعور کی روشنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تزئین و آرائش میں صرف ہو

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button