کراچی یونیورسٹی میں افسوسناک خودکش حملہ اور بلوچ سیاسی سوال: شیتل ملک کا تجزیہ

وہ جنگ تم بھی نہ جیتے جو ہم نے ہاری ہے“
برادرم و استاد وجاہت مسعود نے جناب اکبر بگٹی کی وفات پر اس شعر کا حوالہ دیتے ہوٸے کہا تھا کہ اگر آج اکبر بگٹی زندہ ہوتے تو اسلام آباد کی جانب منہ کرکے یہ مصرعہ ضرور کہتے۔ اس وقت کا تو معلوم نہیں تاہم آج اکبر بگٹی کی روح اسلام آباد کی جانب رخ کرکے یہ طعنہ ضرور دیتی ہوگی کہ سیاسی معاملات کا حل جبر نہیں بلکہ سیاسی عمل میں پوشیدہ ہوتا ہے۔
کراچی یونیورسٹی میں ہونے والا حالیہ خود کش حملہ افسوس ناک ہونے کے ساتھ ساتھ اس لحاظ سے بھی الگ ہے کہ پہلی بار ایک عورت اس حملہ میں استعمال ہوٸی۔ یاد رہے یہ کوٸی ٹین ایج لڑکی یا مذہبی شدت پسند نہیں بلکہ ایم فل, لیکچرر اور ڈینٹل سرجن کی بیوی ہے۔ اگر حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں تو میرے خیال سے ایک وقفہ لے کر تمام معاملات کا از سر نو جاٸزہ لینے کی ضرورت ہے۔
پنجاب میں ان دھماکوں کے بعد اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ بلوچ قوم سرداری سسٹم کے خلاف کیوں نہیں کھڑی ہوتی جو اس استحصل کے ذمہ دار ہیں۔ یہ سوال میرے خیال سے آدھا سچ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان معاملات میں کس سردار کا کیا موقف ہے۔ 80 فیصد سے زیادہ سردار تو ھمیشہ مقتدرہ حلقوں کے ساتھ ہی کھڑے ہوتے ہیں۔ آج بھی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی تشکیل اور اس میں موجود تمام سرداروں کا عمل اور سیاسی standing دیکھ لیں تو معلوم ہوجاٸے گا کہ عام بلوچ کے استحصال میں ملوث یہ سردار کس ایما پر اکٹھے ہوٸے۔ پر کیا یہ سردار عام بلوچ کے یا یونیورسٹی کے فارغ التحصیل بلوچ کی نماٸندگی کرتے ہیں!
1974 میں جب ایک پنجابی حبیب جالب بلوچ قوم کے ساتھ کھڑا تھا اور اس وقت بلوچستان کے گورنر جناب اکبر بگتی بلوچستان میں صوباٸی حکومت ختم ہونے کے باوجود گورنر شپ سنبھالے ہوٸے تھے تو جالب نے ایک مشہور مصرعہ کہا تھا:
سنو تو بھاٸی بگتی
ایک بات کہوں میں ٹُھکتی
جمہوری تحریک روکے سے نہیں رکتی
نہیں بلوچ طلبا رہنماوں نے دیواروں پر نعرے لکھے تھے:
آمریت کے تین نشان
بھٹو, بگتی, ٹکا خان
بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بلوچ سیاسی کارکنوں نے اس جمہوری جدوجہد میں اپنے اکابرین پر بھی سوال اٹھاٸے ہیں۔ سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ اکبر بگتی جو قاٸد اعظم محمد علی جناح سے ہاتھ ملانے اور ملنے کو بیتاب تھا جس نے ھمیشہ پاکستان کا نام لیا وہ بھی غدار ہو سکتا ہے! ایک سیاسی عمل اور جمہوریت کا نہ ہونا اس ملک کو کیا کیا نقصان پہنچا سکتا ہے اس کا اندازہ سردار اکبر بگتی کی وفات کے بعد بلوچستان میں نہ سنبھلنے والے حالات سے لگایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کا قیام 1940 کی قرارداد کے تحت مختلف قومیتوں کے اکٹھا ہونے سے وجود میں آیا تھا۔ پاکستان ایک ملک ہے وہ ھمیشہ رہے گا لیکن اس کے لٸے یہاں موجود قومیتوں کے معاشی و سیاسی مساٸل حل ہونے چاہیے۔ یہی سوال پاکستان کے جنم کی بنیاد تھا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمان اور ریاستیں اپنے معاشی و سیاسی حقوق سے محروم رہتیں۔ کوٸی ملک اپنے اندر کی جنگ نہیں لڑ سکتا۔ سیاسی قیادت نے بہر صورت کچھ نہ کچھ سیاسی عمل چلانے کی کوشش کی جس میں پیپلز پارٹی حکومت کا بلوچستان پیکیج یا نواز حکومت کا اکثریت میں ہونے کے باوجود قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کو حکومت دینا شامل ہے۔ تاہم معاملات جب سیاسی لوگوں کے ہاتھ میں نہیں رہتے یا ان کو اپاہج بنایا جاتا ہے تو معاشرے میں خلا پیدا ہوتا ہے اور یہ خلا کوٸی بھی مذہبی یا قومی شدت پسند جماعت پر کر سکتی ہے۔ حل تو یہ ہے کہ کوٸی خلا ہی پیدا نہ ہونے دیا جاٸے۔
بلوچستان قوم پرستوں کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ جس آذادی کا خواب ان کو باہر رہنے والے دکھا رہے ہیں وہ قابل عمل بھی ہے! ایران, افغانستان اور مڈل ایسٹ ممالک کی موجودگی میں تو یہ شدید استحصال کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ یا ایک عام پنجابی مزدور کو آپ کے ظلم کا نشانہ بنتا ہے اس کا ان حالات میں کیا قصور ہے! لیکن حالات کی بہتری کے لٸے بھی ریاست, ریاستی اداروں اور سیاسی لوگوں کو پہل کرنی ہوگی۔ یہ نٸی نسل اور پڑھے لکھے بچے ہیں ان کے سوالوں کا جواب دیں۔ لوگ غاٸب ہونے سے سوال اپنی جگہ رہتا ہے۔ انسانوں کو ٹٹولا جا سکتا ہے قید کیا جا سکتا ہے تاہم خیالات کی بندش کسی طور ممکن نہیں۔ یہ خیالات ہوا کے دوش پر سفر کرتے ہیں۔
بلوچ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ اس کو پیار سے سمجھاو تو اپنی دھرتی تک آپ سے بانٹ لے گا اور اگر یہی کام غصہ اور جبر سے کرو تو اس سے بڑی اکڑ کسی میں نہیں ہے۔ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں کا حل ایک مضبوط و مربوط سیاسی عمل میں پوشیدہ ہے۔ یہ پہاڑ محبت سے ہی پگھل سکتے ہیں۔ بذیعہ جبر کوٸی بھی عمل اوزاروں کو تو کند کر سکتا ہے تاہم راستہ نہیں بنا سکتا۔ یوں تو جالب نے یہ بنگال کے لٸے کہا تھا لیکن پاکستان کے حالات میں نہ تو جالب پرانا ہوتا ہے اور نہ ہی فیض ختم ہوتا ہے:
محبت گولیوں سے بو رہے ہیں۔۔
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہیں۔۔
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے۔۔
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہیں۔۔۔

شیتل ملک ایک سیاسی و سماجی کارکن ہیں جو content writing کے ساتھ ترجمہ کے شعبہ سے وابسطہ ہیں۔ سیاسی و معاشی حوالے سے باٸیں بازو و لبرل نظریات رکھتی ہیں۔ نساٸیت پسندی (فیمنزم), ملکی و عالمی سیاست, معاشیات ان کے موضوعات ہیں۔
میں نے دو ہزار گیارہ میں ایک سو گیارہ بلوچ نوجوانوں کو مافی دلوائی تھی جن کو حکومت پینشن دے رہی ہے ریٹائرڈ فوجی کی یہی ایک حل ہے میں بلوچ قوم پرستوں کو جانتا ہوں وہ ہتھیار نہیں پھینکیں گے لڑیں گے تقریبن دو ہزار لڑکی بھی اس عمل کا حصا ہے میری یہ بات لکھ لو بلوچ کامیاب ہونگے آپ کسی کے جزبے سے جیت نہیں سکتے اب بھی وقت ہے اپنی کرتوتوں پر مافی مانگئے اور ازالہ کیجئے جو ستر سالوں میں آپ نے زیادتیاں کیں ہیں اورسنگ پرسنز کو بحال کریں ورنہ بہت دیر ہوجائے گی