1973 میں امریکی سپریم کورٹ کا دیا اسقاط حمل کا قانون خود امریکی سپریم کورٹ نے ختم کر دیا، جوبائیڈن ردعمل میں قوم سے خطاب کررہے ہیں

( فرحان مقصود) امریکا کی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کے حق کو ختم کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے 50 سال قبل دیے گئے اپنے ہی ایک فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے جس میں اسقاط حمل کو قانونی عمل قرار دیا گیا تھا۔اس فیصلے کے بعد لاکھوں امریکی خواتین اسقاط حمل کے قانونی حق سے محروم ہو جائیں گی۔
1973 میں امریکی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کو آئینی حق قرار دیا تھا ۔ آج سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا کہ آئین کسی کو یہ حق نہیں دیتا بائیڈن ردعمل میں قوم سے خطاب کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ امریکا میں اسقاط حمل کے موجودہ قوانین کو تبدیل کر دے گا اور اب مختلف ریاستیں انفرادی سطح پر اسقاط حمل کے طریقہ کار پر پابندی لگانے کے قابل ہو جائیں گی۔ یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اس فیصلے کے بعد 50 امریکی ریاستوں میں سے لگ بھگ نصف اسقاط حمل کے حوالے سے نئی پابندیاں متعارف کروائیں گی۔
تیرہ ریاستیں پہلے ہی نام نہاد قوانین پاس کر چکی ہیں جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اسقاط حمل کو غیر قانونی قرار دے دیں گے۔ غالب امکان ہے کہ بہت سی دوسری ریاستیں اس ضمن میں نئی پابندیاں تیزی سے عائد کریں گی۔
اسقاط حمل کی سہولت فراہم کرنے والی تنظیم ‘پلانڈ پیرنٹ ہڈ’ کی تحقیق کے مطابق مجموعی طور پر بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی تقریباً تین کروڑ 60 لاکھ خواتین کے لیے اسقاط حمل کے ذرائع تک رسائی منقطع ہونے کی توقع ہے۔سپریم کورٹ میں ایک ایسا کیس زیر سماعت تھا جس میں ریاست میسی سیپی میں 15 ہفتے کے حمل کے بعد اسقاط حمل پر پابندی کے قانون کو چیلنج کیا گیا تھا۔
لیکن قدامت پسند اکثریتی عدالت نے نظریاتی خطوط پر چھ کے مقابلے میں تین ووٹوں سے ریاست کے حق میں فیصلہ دیا اور مؤثر طریقہ کار سے اسقاط حمل کے آئینی حق کو ختم کر دیا۔فیصلے کے ایک حصے میں کہا گیا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ آئین اسقاط حمل کا حق نہیں دیتا ہے اور اسقاط حمل کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کو واپس کیا جانا چاہیے۔
کیلیفورنیا، نیو میکسیکو اور مشی گن سمیت متعدد ریاستوں کے ڈیموکریٹک گورنرز پہلے ہی اس صورت میں اپنے اپنے ریاستی قوانین میں اسقاط حمل کے حقوق کو شامل کرنے کے منصوبوں کا اعلان کر چکے ہیں اگر سپریم کورٹ اس عمل کو غیرقانونی قرار دیتا ہے۔