کوئٹہ میں نان بائی ایسوسی ایشن کی طرف سے ہڑتال، صوبہ بھر میں گندم کا بحران شدید تر

( مانیٹرنگ ڈیسک ) کوئٹہ میں نان بائیوں نے روٹی کی قیمت بڑھانے کیلئے ہڑتال کا اعلان کردیا، شہر کے تمام تندور جمعرات کو بند رہیں گے۔
کوئٹہ میں صدر نان بائی ایسوسی ایشن نعیم خلجی نے دیگر عہدیداروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آٹے کی قلت کے باعث 100 کلو آٹے کا تھیلہ 8 ہزار 50 سے بڑھ کر 10 ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے، جس کی وجہ انہیں مالی مشکلات کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نان بائیوں کی جانب سے روٹی مہنگی یا وزن کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ضلعی انتظامیہ ان پر بھاری جرمانے عائد کرتی ہے، اس کے علاوہ 2021ء میں گیس کا فی یونٹ 14 روپے تھا آج گیس کا ایک یونٹ 36 روپے ہے۔
نعیم خلجی نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ روٹی کی قیمت بڑھانے کی اجازت دے یا پھر آٹے کی قیمت کم کرے۔
ایک سوال کے جواب میں صدر نان بائی ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ ہم مزید نقصان برداشت نہیں کرسکتے، مطالبات کے حق میں جمعرات 8 ستمبر کو ہڑتال کی جائے گی، اس روز شہر کے تمام تندور بند رہیں گے۔
انہوں نے شہریوں سے بھی اپیل کی ہے کہ جمعرات کو تندوروں پر روٹی نہیں ملے گی، صارفین متبادل انتظام کرلیں۔
کوئٹہ کے شہریوں کا صرف یہ مسئلہ نہیں بلکہ اکثر ان لوگوں کو خوراک اور روز مرہ کے سامان کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ خصوصاً جو غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
رواں ماہ آٹے کی قلت اور مہنگا فروخت کرنے کی خبروں پر وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے نوٹس لیا تھا۔ انہوں نے کوئٹہ سمیت دیگر اضلاع میں گندم اور آٹے کی قلت اور زائد نرخوں پر فروخت کرنے پر محکمہ خوراک کو ہنگامی اقدامات کی ہدایت کی ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے نوٹس اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ محکمہ اطلاعات کی جانب سے پانچ ستمبر کو جاری ایک خبر میں بتایا گیا کہ پشین میں میں ڈ پٹی کمشنر ظفر علی محمد شہی نے مہنگے داموں آٹا فروخت کرنے پر متعدد دکانوں کو سیل کردیا ہے۔
کوئٹہ کے آٹا ڈیلر ایسوسی ایشن کے صدر خدائیداد آغا نے بتایا کہ کوئٹہ سے اندرون صوبہ راستوں کی بندش کے باعث گاڑیاں پھنس گئی ہیں۔ جس کے باعث شہر میں اس وقت آٹے کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
خدائیداد کا کہنا تھا ’اس وقت شہر میں حکومت کی جانب سے چھاپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ڈی سی نے متعدد دکانوں اور فلور ملز کو سیل کردیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ صورت حال راستے کھلنے پر بہتر ہو جائے گی تاہم آٹے کے نرخوں میں ٹرک اور گاڑیوں کے کرائے بڑھنے سے اضافہ ہوگا۔
اس وقت فی کلو آٹا 110 روپے کلو فروخت کررہے ہیں۔ تاہم بعض علاقوں میں نرخ اس سے زیادہ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت کوئٹہ شہر میں 50 کلو گرام آٹے کی بوری پانچ ہزار دو سو روپے سے لے کر پانچ ہزار پانچ سو روپے تک فروخت ہورہی ہے۔ ہر فلور مل اپنے نرخ پر آٹا فروخت کررہی ہے۔
خدائیداد نے بتایا کہ ان کی ایک گاڑی بولان کےعلاقے میں راستے بند ہونے سے پھنس گئی ہے۔ جس میں پانچ سو پارسل موجود ہیں۔ جس کا کرایہ ایک لاکھ 30 ہزار ہوگیا ہے۔ جو پہلے 60 ہزار روپے تھا۔ اس کی وجہ سے آنے والوں دنوں میں آٹا دستیاب ہوگا لیکن قیمتیں بڑھ جائیں گی۔
آٹے کے بحران کے حوالے سے سابقہ چیئرمین بلوچستان فلور ملز ایسوسی ایشن بدرالدین کاکڑ کا کہنا ہے کہ : ’ہم نے 10 دن پہلے حکومت کو خبردار کردیا تھا کہ اس حوالے سے اقدامات اٹھائے کیونکہ بحران پیدا ہوسکتا ہے۔‘
بدرالدین کاکڑ نے میڈیا کو بتایا کہ ان کی طرف سے خبردار کرنے کے باوجود حکومت نے کوئی اقدامات نہیں کیے جس کی وجہ سے اس وقت 100 کلو گرام کی آٹے کی تھیلی 12 ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے بتایا: ’بلوچستان کے گندم پیدا کرنے والے علاقے جعفرآباد، نصیرآباد اور جھل مگسی میں اس وقت سیلاب ہے۔ کچھ آٹا پنجاب سے آرہا تھا۔ سیلاب وہاں آنے سے وہ بھی بند ہوگیا۔ سندھ بھی آٹا باہر لے جانے پر پابندی لگا چکا ہے۔‘
بدرالدین کہتے ہیں کہ صورت حال آئندہ مزید خراب ہوسکتی ہے اور لوگوں کو آٹے کے حصول کے لیے لائنوں میں لگنا پڑے گا۔ کیوںکہ اس حکومت نے اس مد میں کوئی سبسڈی نہیں دی ہے۔ جس طرح پنجاب نے 200 ارب روپے کی سبسڈی کا اعلان کیا تاکہ عوام کو سستے داموں آٹا مل سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صورت حال میں ناجائز منافع خوربھی سامنے آئیں گے۔ ذخیرہ اندوزی بڑھے گی۔ لوگ مہنگے داموں آٹا فروخت کریں گے۔
بددالدین نے بتایا: ’بلوچستان میں ایک شخص سال میں 123 کلوگرام آٹا استعمال کرتا ہے۔ اس کے حساب سے ہمیں ماہانہ 15 سے 16 لاکھ 100کلو گرام بوری گندم کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’محکمہ خوراک زمیندار سے اچھے ریٹ پر گندم خریدتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے پاس وافر مقدار میں گندم ذخیرہ کرلیتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بحران کی شکل میں مارکیٹ میں یہ لاکر نرخ کر کم کرسکتا ہے۔‘
بدرالدین کے بقول ان کے لیے خام مال نصیرآباد اورجعفر آباد اورجھل مگسی کےعلاقوں سے آتا تھا۔ وہاں اس وقت پانی کھڑا ہے اور راستے بند ہیں۔
’صوبے بھر میں ایک کروڑ گندم بوری کی پیداوار ہوتی ہے۔ محکمہ خوراک نے اس سال صرف تین لاکھ بوری گندم کی خریداری کی ہے۔‘
وہ مزید معاملے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت کچھ گندم جو پنجاب سےآرہی تھی وہ بھی بند ہوگئی ہے۔ سندھ نے بھی پابندی لگا دی ہے۔ ’ہمارے پاس جو ذخیرہ تھا وہ بھی ختم ہوچکا ہے۔ حکومت نے خریدے ہوئے گندم سے کسی کو ایک بوری نہیں دی ہے۔‘
بدرالدین کہتےہیں کہ اس کمی کو پورا کرتے ہوئے بہت وقت لگ جاتا ہے۔ منافع خوری بھی شروع ہوجاتی ہے۔ اس کےعلاوہ جن کے پاس آٹا اور گندم ہوگی وہ مہنگا ہی فروخت کرے گا۔ بعض لوگ مستقبل کے خطرےکے پیش نظر زیادہ آتا ہے۔
ن کا کہنا تھا کہ بحران تو رہے گا اگر حکومت نےسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومتِ پنجاب سے اور سندھ اور پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو) سے بات کر کے 15 لاکھ بوری گندم نہ خریدی تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ کیوں کہ ڈیمانڈ کے مطابق سپلائی نہ ہونے سے قیمتیں بڑھتی ہیں۔
سابق چیئرمین بلوچستان فلور ایسوسی ایشن کہا: ’حکومت یہ کرسکتی ہے کہ آئندہ چوکوں پر گاڑی کھڑی کرے اور لوگوں کو شناختی کارڈ پرایک تھیلہ آٹا دے۔ لیکن لوگوں کو جب تک دکان سے سستا آٹا نہیں ملے گا۔ حالات کو قابو میں کرنا ممکن نہیں ہوگا۔‘
اس ضمن میں محکمہ خوراک کے وزیر اور ان کے سیکریٹری اور ڈائریکٹر جنرل سے بحران کے حل اورمستقبل کے اقدامات کے حوالے سے رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بز نجو نے محکمہ خوراک کو ستمبر کے کوٹے کی گندم فوری طور پر آٹا ملوں کو جاری کرنے اور گندم اور آٹے پر عائد بین الصوبائی پابندی کے خاتمے کے لیے دیگر صوبوں سے بات کرنے کی ہدایت کی ہے۔