امریکا کی جانب سے سیلاب زدگان کی امداد کے حوالے سے سرد مہری کی وجوہات امریکی محکمہ خارجہ نے بتا دیں

( رضا ہاشمی ) امریکی محکمہ خارجہ کے قونصلر ڈیرک شولیٹ نے کہا ہے کہ 2010 کے سیلاب کے برعکس حالیہ سیلاب کے دوران امریکی امداد میں کمی کی وجہ پاکستان امریکہ تعلقات نہیں بلکہ وسائل کا فقدان ہے۔
ڈیرک شولیٹ نے رواں ماہ کے آغاز میں پاکستان کا دورہ کیا تھا جہاں انھوں نے سیلاب سے ہونے والی تباہی کے حوالے سے پانچ کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی امداد دینے کی یقین دہانی کے علاوہ پاکستان امریکہ تعلقات کے 75 برس مکمل ہونے کے حوالے سے تقریبات میں بھی شرکت کی تھی۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان تمام موضوعات پر تفصیلی گفتگو کی۔
مبصرین کی جانب سے پاکستان میں حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کے بعد اقوامِ عالم کے سست ردِ عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
2010 کے سیلاب کے باعث حالیہ سیلاب سے کم تباہی ہوئی تھی تاہم امریکہ سمیت دیگر ممالک کی جانب سے اس ضمن میں بڑھ چڑھ کر امداد دینے کے علاوہ آئی ایم ایف سے پاکستان کے لیے شرائط میں نرمی کا بندوبست بھی کیا گیا تھا۔
ڈیرک شولیٹ کا کہنا تھا کہ حالات 2010 سے یکسر مختلف ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’امریکی کانگریس نے اس وقت پاکستان میں عوام کی فلاح کے لیے اربوں ڈالر مختص کر رکھے تھے جو افغان جنگ کے تناظر میں کی گئی کوششوں کے اعتراف میں دیے گئے تھے لیکن اس وقت ہمارے پاس وہ وسائل نہیں۔‘
2010 میں افغان جنگ عروج پر تھی اور اس دوران امریکہ پاکستان کو اپنا قریبی اتحادی سمجھتا تھا تاہم گزشتہ 12 سال کے دوران امریکہ پاکستان تعلقات میں اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملے ہیں۔
گزشتہ برس امریکی کی سربراہی میں نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلا ہوا تھا جس کے بعد سے وہاں طالبان کی حکومت ہے۔
تاہم ڈیریک شولیٹ کے مطابق امداد میں واضح کمی کی وجہ تعلقات میں سرد مہری ہرگز نہیں بلکہ عالمی معاشی بحران اور یوکرین جنگ بھی اس کی وجوہات میں سے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’دنیا میں تقریباً ہر جگہ ہی معاشی مشکلات گھمبیر ہو رہی ہیں اور یورپ اس وقت یوکرین جنگ کے باعث اپنے سب سے بڑے انسانی المیے سے گزر رہا ہے۔‘
’یورپی یونین نے اس سال کے اپنے زیادہ تر وسائل پہلے ہی خرچ کر دیے ہیں لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی میں اگلے کئی ماہ لگ سکتے ہیں اس لیے ہمیں امداد کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔‘
اس بارے میں مزید بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میری پاکستان میں موجودگی کے دوران اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی وہاں موجود تھے اور انھوں نے بھی واضح کیا ہے کہ اس حوالے سے مزید امداد دی جائے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آنے والے دنوں میں ورلڈ بینک پاکستان میں سیلاب کے حوالے سے اپنا تجزیہ پیش کرے گا جس سے یہ معلوم ہو گا کہ پاکستان میں کن چیزوں کی خصوصاً ضرورت ہے اور جب ہمارے پاس یہ معلومات ہوں گی، تو ہمیں واضح انداز میں حکمتِ عملی بنانے کا موقع ملے گا۔‘
پاکستان میں سیلاب کی تباہی کا اعتراف کرتے ہوئے شولیٹ ڈیرک کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کا میلوں پر محیط حصہ ڈوبا ہوا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پورے ملک کا ایک بڑا حصہ اب ایک جھیل کی شکل اختیار کر گیا ہے اور پاکستان میں ہونے والی میٹنگز میں ہمیں بتایا گیا کہ کچھ حصہ کئی ماہ تک پانی میں ڈوبا رہے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’لاکھوں افراد بے گھر ہیں اور اس کے باعث فصلوں اور انفراسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے اس لیے ایک تو فوری بحران ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیلاب کے اثرات کئی مہینوں تک نظر آئیں گے۔‘
پاکستان کو \ 2010 میں آئی ایم ایف کی جانب سے ریلیف دیا گیا تھا اور اسے بجٹ خسارے کے اہداف کے حوالے سے چھوٹ دی گئی تھی تاہم اس مرتبہ تاحال اس کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
دوسری جانب وزیر خارجہ پاکستان بلاول بھٹو زرداری نے اپنے امریکی دورے کے دوران واشنگٹن میں اہم امریکی شخصیت سے ملاقات کی ہے۔
وزیرخارجہ نے واشنگٹن میں امریکی نمائندہ خصوصی برائے تجارتی و کاروباری امور دلاور سید سے ملاقات کی جس میں سیلاب کی صورتحال، امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ معاونت اور پاک امریکہ تجارتی تعلقات کے فروغ پر بات چیت ہوئی۔
امریکی نمائندہ خصوصی نے سیلاب کی تباہ کاریوں پر افسوس اور دکھ کا اظہار کیا، ملاقات میں وزیر مملکت حنا ربانی کھر بھی موجودتھیں۔
واضح رہے کہ وزیرخارجہ بلاول بھٹو اپنے امریکی دورے پر واشنگٹن میں موجود ہیں جہاں وہ ارکان کانگریس وسینیٹرز سے ملاقات کریں گے۔
اپنے دورے کے دوران وزیرخارجہ بلاول بھٹو معروف امریکی تھنک ٹینکس اورمیڈیا سے بھی گفتگو کریں گے۔
اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق 2010 کے سیلاب کے دوران امریکہ کی جانب سے پاکستان کے لیے 90 کروڑ ڈالر کی امداد کا اہتمام کیا گیا تھا اور آئی ایم ایف سے بجٹ خسارے کے اہداف میں نرمی کی منظوری بھی دلوائی گئی تھی۔
اس کے علاوہ دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے بھی پاکستان کی مدد کرنے میں امریکی تعاون پیش پیش تھا۔
تو کیا وجہ ہے کہ اس مرتبہ امریکہ کی جانب سے ہچکچکاہٹ دکھائی جا رہی ہے؟
ڈیرک شولیٹ کا کہنا تھا کہ امریکہ آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے گذشتہ ماہ پاکستان کو متعدد ارب ڈالر دینے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ نومبر میں اس حوالے سے ایک اور اہم میٹنگ ہونی ہے اور اب یہ واضح ہے کہ ہمیں سیلاب کے باعث ہونے والی تباہی کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا لیکن میں قبل از وقت کچھ نہیں کہنا چاہوں گا۔
’تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ واشنگٹن کو پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز کا ادراک ہے اور یہ سیلاب کے باعث مزید سنگین ہو گئے ہیں۔‘
پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر گذشتہ کئی ماہ سے ’امریکی سازش‘ کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے۔
اس کی وجہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی اپنی گزشتہ حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی ہے جسے وہ ’ریجیم چینج کی امریکی سازش‘ قرار دیتے رہے ہیں۔
جب ڈیریک شولیٹ سے اس دعوے کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری جانب سے مداخلت کے دعوؤں میں کوئی صداقت نہیں، میں بس اتنا ہی کہنا چاہوں گا۔‘
پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر گذشتہ کئی ماہ سے ’امریکی سازش‘ کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے۔
اس کی وجہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی اپنی گذشتہ حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی ہے جسے وہ ’ریجیم چینج کی امریکی سازش‘ قرار دیتے رہے ہیں۔
جب ڈیریک شولیٹ سے اس دعوے کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری جانب سے مداخلت کے دعوؤں میں کوئی صداقت نہیں، میں بس اتنا ہی کہنا چاہوں گا۔‘
حال ہی میں امریکی وزارتِ دفاع نے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی دیکھ بھال کے لیے آلات اور سروسز کی مد میں 45 کروڑ ڈالر کے ممکنہ معاہدے کی منظوری دی تھی تاہم ایسی میڈیا رپورٹس سامنے آئی تھیں جن کے مطابق انڈیا کی جانب سے اس معاہدے کی مخالفت کی گئی ہے۔
تاہم ڈیریک شولیٹ کا کہنا تھا کہ ’ہم پاکستان امریکہ تعلقات کو کسی دوسرے ملک کے تناظر میں نہیں دیکھتے، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اپنی جگہ اہم ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان مضبوط دفاعی روابط کی ایک طویل تاریخ ہے اسی لیے ہمیں ایف 16 طیاروں کی دیکھ بھال کے حوالے سے پاکستان سے معاہدہ کرنے پر خوشی ہوئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکہ پاکستان کے ساتھ نہ صرف عسکری روابط بہتر کرنا چاہتا ہے بلکہ معاشی روابط میں بھی بہتری چاہتا ہے۔‘
’ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ مل کر مشترکہ اہداف کا حصول اور چیلنجز کا سامنا کریں۔‘